اداریہ

نفرت کی سیاست کا خاتمہ ضروری

2024 کے لوک سبھا انتخابات کے ذریعے بھارت کے عوام نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو یہ واضح پیغام دیا تھا کہ ملک کی اکثریت یہاں نفرت کی سیاست کو پسند نہیں کرتی۔ یقیناً ان انتخابات میں بی جے پی کی فرقہ ورانہ سیاست کو مکمل شکست تو نہیں ہو سکی لیکن اس کو واضح اکثریت کا نہ ملنا اور اتر پردیش و مہاراشٹر جیسی اہم ریاستوں اور فیض آباد جیسے اہم پارلیمانی حلقے میں اس کی بدترین شکست اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک کے عوام اب نفرت کے اس گھناونے کھیل سے اوب چکے ہیں۔ اگرچہ بی جے پی نے پارلیمانی انتخابات کے دوران اپنی پوری انتخابی مہم اسی نفرت کی بنیاد پر چلائی تھی۔ وزیر اعظم مودی اور دیگر بی جے پی کے لیڈروں نے اپنی نفرت انگیز تقاریر، غیر اخلاقی اسلوب اور ناشائستہ و غیر پارلیمانی زبان کا استعمال کر کے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے اور ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن عوام نے اس نفرت انگیز بیانیے کو مکمل طور پر نہ سہی بڑی حد تک مسترد کر دیا ہے۔ بلکہ جن جن حلقوں میں اس طرح کی تقاریر ہوئی ہیں ان تمام حلقوں میں بی جے پی کو ذلت آمیز شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان انتخابات میں حکم راں جماعت نے سرکاری مشنری، الیکشن کمیشن، ای ڈی اور دیگر دستوری اداروں کا جس طرح اپنے حق میں استعمال کیا وہ نہ کرتی اور یہ انتخابات برابری کی سطح پر ہوتے تو بی جے پی اس مقام تک بھی نہ پہنچ پاتی۔ پارلیمانی انتخابات کے بعد ہونے والے تیرہ اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں بھی یہی رجحان سامنے آیا ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود یوں محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی نے ان انتخابات سے نہ تو کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ ہی وہ نفرت کی اس سیاست کو ترک کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔ کیوں کہ وہ سمجھتی ہے کہ یہی اس کی کامیابی کے لیے ترپ کا پتہ ہے۔ اور اس کے نزدیک اس کا عروج بھی اسی سیاست کا مرہون منت ہے۔ چنانچہ پارلیمانی انتخابات کے بعد اس طرح کے واقعات، بیانات اور اقدامات میں مزید تیزی آگئی ہے۔ اب جب کہ اگلے چھ سات ماہ کے دوران ہریانہ، مہاراشٹر، جھارکھنڈ اور دہلی کے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی اسی نفرت کی سیاست کی بنیاد پر ان ریاستوں میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے، لہٰذا اس کے لیے ماحول گرم کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔
آسام کے چیف منسٹر ہیمنٹ بسوا سرما نے ایک بے سروپا بیان دیتے ہوئے کہا کہ 2041 تک آسام ایک مسلم اکثریتی ریاست بن جائے گی۔ یہاں کی آبادی ہر دس برس میں 30 فیصد بڑھ رہی ہے۔ حالاں کہ ملک میں 2011 کے بعد سے کوئی مردم شماری نہیں ہوئی۔ سال 2021 میں مردم شماری ہونی تھی لیکن تین برس گزرجانے کے باوجود ابھی تک اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ اس کے باوجود بسوا سرما ایسی بے سروپا باتیں کرکے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے اور ان کو مسلمانوں سے خوف زدہ کرنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں آسام کی کابینہ نے 1935 سے جاری مسلم نکاح و طلاق رجسٹریشن کے قانون کو منسوخ کرنے کے لیے ایک بل کو بھی منظوری دی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ مذکورہ اقدام کے پیچھے بھی وہی مسلم دشمنی کی سیاست کار فرما ہے، اگرچہ ریاستی حکومت اس کو مسلمانوں کی اصلاح قرار دیتی ہے۔
اسی طرح اتر پردیش میں کانوڑ یاترا کے موقع پر راستے میں واقع مختلف غذائی اشیاء کی دکانوں پر ان کے مالکین کے ناموں کی تختی لگانے کے لیے ریاستی حکومت کی جانب سے جو حکم نامہ جاری کیا گیا تھا وہ ملک کو مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی ایک اور ناپاک کوشش تھی۔ اتر پردیش کی حکومت نے مذہبی جذبات کو بنیاد بنا کر یہ غیر دستوری حکم نامہ جاری کر دیا تھا کہ کانوڑ یاترا کے راستے میں آنے والے تمام دکانوں کے مالکین اور ان میں کام کرنے والے افراد کے نام تختیوں پر آویزاں کیے جائیں تاکہ ان کی شناخت ہوسکے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ حکم راں اس ملک کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ وہ تو غنیمت ہوئی کہ عین وقت پر سپریم کورٹ نے اس حکم نامے پر روک لگا کر اس بدترین روایت کو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا ہے، لیکن اس سے بی جے پی کے ناپاک ارادوں کا خوب اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے۔
مہاراشٹر میں رواں سال ماہ نومبر میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں، جہاں پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کا مظاہرہ انتہائی خراب رہا، وہاں بھی ماحول کو خراب کرنے کی پوری کوششیں کی جا رہی ہیں۔ چنانچہ کولہا پور کے ایک گاوں میں غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کے نام پر ہندتو کے غنڈوں نے جس طرح ایک مسجد پر حملہ کیا اور اس کو منہدم کرنے کی کوشش کی اور بستی میں فساد برپا کیا وہ سب دراصل انہی کوششوں کا حصہ ہے۔
بی جے پی کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس ملک کے عوام بنیادی طور پر امن پسند ہیں وہ نفرت کی سیاست کو بہت دنوں تک برداشت نہیں کرسکتے اور نہ وہ اب بی جے پی کی ان چالوں میں آئیں گے۔ اسے چاہیے کہ وہ اس نفرت پر مبنی اس منفی سیاست کو ترک کرکے معقولیت اور مثبت کاموں کے ساتھ سیاست کرے۔ اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ انتشار پھیلا کر اور بدامنی کی فضا پیدا کر کے نہ تو ملک کو آگے لے جا سکتی ہے اور نہ ہی عوام کا کوئی بھلا کرسکتی ہے۔ ملک کے عوام کو بھی اب نفرت کی اس سیاست کے خلاف مزید باشعور اور چوکس ہونے کی ضرورت ہے تاکہ منفی سیاست کو ملک میں جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جا سکے اور ایک پُر امن سماج تشکیل دیا جا سکے۔