اداریہ

بھارتی سماج کا یہ سیاہ چہرہ

ملک کو آزادی حاصل کیے اور ایک جمہوری دستور اختیار کیے ہوئے پچھتر برس پورے ہو چکے ہیں۔ لیکن ہمارا ملک ذات پات کی بنیاد پر چھوت چھات اور امتیازی سلوک جیسی قبیح برائی سے ابھی تک پاک نہیں ہو سکا ہے۔ پس ماندہ اور درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے افراد کو یہاں کے مذہبی مقامات، اسکولوں، سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور دیگر عام مقامات پر روزانہ اس طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات یہ مکروہ روایت ذہنی اذیت سے آگے بڑھ کر جسمانی تشدد اور بدترین غیر انسانی سلوک کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے۔ اگرچہ ملکی آئین کے مطابق ذات پات کی بنیاد پر کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک غیر قانونی اور قابل سزا جرم ہے لیکن اس کے باوجود یہ قبیج عمل ہمارے ملک میں ابھی بھی جاری ہے۔ ہمارے ملک میں ذات پات اور اس کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ امتیازی اور غیر انسانی سلوک کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ یہاں کے مذہبی مقامات، اسکولوں، سرکاری و غیر سرکاری اداروں، حتیٰ کہ جیلوں میں بھی یہی صورت حال جاری ہے۔ جیل وہ مقام ہے جہاں داخل ہونے والا ہر فرد مجرم ہوتا ہے اور وہاں ہر کسی کی وہی ایک شناخت ہوتی ہے۔ لیکن حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ بھارت کی جیلوں میں مجرم کی ذات بھی اس کے لیے ایک اضافی شناخت کا کام کرتی ہے اور جیل میں اس کی ذات کے مطابق ہی اس کی رہائش کی جگہ طے ہوتی ہے اور اس کی مشقت و سزا کا تعین بھی اسی بنیاد پر ہوتا ہے۔ دی وائر کی سکنیا شانتا کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق بھارت کی جیلوں میں قیدیوں کو ان کی ذات پات کی بنیاد پر الگ تھلگ رکھا جاتا ہے اور قید بامشقت کے قیدیوں کو بطور سزا جو کام دیا جاتا ہے وہ بھی ان کی ذات پات کی بنیاد پر متعین کیا جاتا ہے۔ یعنی اگر مجرمین اعلیٰ ذات کے ہوں تو انہیں کھانا پکانے وغیرہ کا کام سونپا جاتا ہے جب کہ نچلی ذات کے مجرموں کو صفائی اور غلاظت اٹھانے کے کام پر لگایا جاتا ہے۔
سکنیا شانتا نے اپنی رپورٹ کی بنیاد پر جنوری 2024 کے دوران سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کی تھی جس پر فیصلہ لیتے ہوئے 10 جولائی 2024 کو چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت پر مشتمل ایک بنچ نے یہ اشارہ دیا کہ وہ وزارت داخلہ کو اس امر کی ہدایت جاری کرے گی کہ بھارت کے جیلوں میں جاری اس روایت کو ختم کرنے کے لیے ایک نوڈل آفیسر کا تقرر کرے۔ سپریم کورٹ نے جیلوں کے ضوابط پر بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں انتہائی شرم ناک قرار دیا اور پوچھا کہ کیا ان ضوابط میں بھی اس طرح کی قبیح روایتوں کی گنجائش موجود ہے جو ملکی آئین کے خلاف ہیں؟ یہ صورت حال اترپردیش، مغربی بنگال اور آندھرا پردیش کے بشمول ملک کی کئی ریاستوں کی جیلوں میں پائی جاتی ہے۔ سکنیا شانتا کی رپورٹ اور مفاد عامہ کی عرضی پر سپریم کورٹ کے اس تبصرے نے ایک بار پھر ہندوستانی سماج کی اس بھیانک سچائی کو بحث کا موضوع بنا دیا ہے کہ انسانوں کے درمیان ذات پات کی بنیاد پر ہونے والے اس امتیازی سلوک کی جڑیں کس قدر گہری ہیں اور اس نے کس طرح پورے بھارتی سماج کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ یہاں تک کہ جیل جیسے مقام پر جہاں ہر ایک کی شناخت اس کے جرم کی شدت اور شناعت کی بنیاد پر ہوتی ہے وہاں بھی ذات پات ایک اہم عنصر کے طور پر کام کرتا ہے۔ ہمارا ملک دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے جہاں آئین نے ہر فرد کو یکساں حقوق دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن کاغذ پر لکھی ہوئی یہ باتیں محض تحریری دعووں کی صورت میں ہی ہیں جب کہ سماج میں آج بھی اونچ نیچ اور امتیاری سلوک کی وہی ہزاروں سال پرانی رسمیں جاری و ساری ہیں۔
یہ پورا معاملہ یہاں بسنے والی امت مسلمہ کے لیے بھی سوچنے اور غور و فکر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ انسانی مساوات اور سماجی انصاف کا سب بہترین نظریہ اور اس سلسلے میں رحمتِ عالم حضرت محمد ﷺ کا بہترین عملی نمونہ اپنے پاس رکھنے کے باوجود بے عملی کا نمونہ بنی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ عدل و انصاف پر مبنی اسلام کے اس آفاقی پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچائے کہ تمام بنی آدم ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، ان میں کسی کو بھی عزت و شرف پیدائش کی بنیاد پر نہیں بلکہ نیکی و بھلائی کی بنیاد پر عطا ہوتا ہے۔