اداریہ

ہجومی باباؤں اور جنونی چیلوں کا مسئلہ

آئین ہند کی دفعہ 51 میں شہریوں کو ان کے فرائض یعنی ڈیوٹی کے کام بتائے گئے ہیں، جن میں ایک اہم فرض ’’سائنس راج‘‘ اور اچھائی کو پروان چڑھانے سے متعلق ہے۔ گیارہ فرائض کو آئین کا حصہ بنانے کی غرض و غایت یہ بتائی گئی کہ ان کے ذریعہ ایک فلاحی معاشرہ وجود میں آئے، نیز شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے فرائض متعین کرنا بھی خود سپریم کورٹ نے ضروری قرار دیا ہے۔ Scientific Temper والی اسی شق کے تحت انسانيت تجسس، جستجو کی روح اور اصلاح جیسی باتیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔
ان اعلیٰ انسانی و معاشرتی اقدار کو اختیار کرنے اور فروغ دینے پر بھلا کسے اعتراض ہو سکتا ہے۔ لہٰذا انفرادی اور معاشرتی سطح سے لے کر حکومتی سطح پر سب کو مل جل کر اپنے اندر سائنسی مزاج پیدا کرنے کے لیے رغبت دلانا ہوگا۔ یہ ایک مطلوب و مستحسن بلکہ مذہبی عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔
دینِ اسلام نے ہمیشہ سے توہم پرستی، اندھی عقیدت، غیر مدلل اور نامعقول روایات و رجحانات سے دور رہنے کی انسانوں کو تاکید کی ہے۔ کہا گیا کہ ’’خُذْ ما صَفا ودَعْ ما کَدِر‘ یعنی اچھی اور بھلی بات جہاں ملے اختیار کر لو اور خراب، مفسد، گندی بات یا عمل سے دور رہو۔
محض اس وجہ سے لوگ بعض اعمال یا روایات سے چپکے رہتے ہیں کہ ان کی سابقہ نسلوں نے انہیں انجام دیا تھا یا ان کے سماج میں ان چیزوں کا رواج چلا آرہا ہے۔
’پرمپرا اور سنسکرتی‘ کے نام پر برصغیر ہند و پاک میں جو طوفان بد تمیزی برپا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ در اصل اتر پردیش کے ضلع ہاتھرس میں ایک برطرف سرکاری ملازم سے مطلوب ملزم اور پھر دھرم گرو بننے والے مبینہ ’’بھولے بابا‘‘ نے لاکھوں کی تعداد میں بھولی بھالی عوام کو اپنا گرویدہ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ اس سے قبل پنجاب میں ڈیراسچا سود کے گرمیت رام رحیم، گجرات کے آسارام باپو، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، اتر پردیشں، اترا کھنڈ اور کرناٹک بلکہ کم وبیش ہر ریاست میں کوئی نہ کوئی چھوٹا بڑا ایسا بابا مل جاتا ہے جو عقیدت مندی کے نام پر ہزاروں لاکھوں کی بھیٹر اپنے آگے پیچھے جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب جعلی اور خود غرض گروؤں، باباؤں، مقرروں اور سادھووں کی روز افزوں تعداد کو دیکھنے کے بعد کیسے مانا جائے کہ ہمارا موجودہ معاشرہ آنکھیں کھلی رکھ کر اپنا بھلا سوچنے کے لائق بن رہا ہے؟ کیا ہماری حکومت یہ چاہتی بھی ہے کہ عوام اور ووٹر غیر سائنسی رجحانات اور اثرات سے پاک رکھے جائیں؟ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ سماج میں تہذیب، سنسکار، عادات و اخلاق پیدا کرنے اور دھرم کرم کے نام پر یہ سب روا رکھا جا رہا ہے۔ لہٰذا ان حرکتوں کو اب عین خدمت خلق بلکہ ملک و قوم کی محبت میں کیا گیا کام خیال کیا جا رہا ہے۔
ہاتھرس بھگدڑ میں سوا سو اموات اور کم و بیش اتنی ہی تعداد زخمیوں کی بھی ہے۔ سنہ 2003 سے اب 2024 تک ملک میں اس طرح کی مذہبی یاتراؤں و جلسوں میں ہونے والی کل اموات کی تعداد 1342 ہے۔
ابتداءً بتایا گیا کہ سورج پال سنگھ عرف بھولے بابا کے مبینہ روحانی اور جادوئی فیض سے استفادہ کے لیے 80 ہزار افراد کی اجازت ملنے کے بعد تقریباً ڈھائی لاکھ معتقدین وہاں جمع ہوگئے تھے اور بابا کی قدم بوسی کی چاہت میں بھگدڑ مچ گئی۔ اب خود بابا کی جانب سے کسی سازش کی بات کہی جا رہی ہے۔ چونکانے والی بات تو یہ ہے کہ ایف آئی آر میں اس بابا پر کوئی الزام ہی عائد نہیں کیا گیا نہ اس کا نام شکایت میں درج ہے۔ ظاہر ہے کہ سرکار اور انتظامیہ بھی چاہتی ہے کہ اس بابا پر اس سانحہ کی آنچ نہ آنے پائے۔ سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کی سرپرستی کے بغیر یہ بابا اور گرو نہ پنپ سکتے ہیں نہ اپنے جرائم سے بچ سکتے ہیں۔ اور باباؤں کے عقیدت مندوں کی لائن میں قریب قریب سب ہی لیڈر قسم کے لوگ ایک قطار میں کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان سب باتوں سے قطع نظر سماج میں جو اندھی عقیدت مندی پنپ چکی ہے اس کا ازالہ وقت کی اہم ضرورت ہے، جس کا اندازہ ایک خاتون عقیدت مند کو میڈیا میں یہ سننے کے بعد لگایا جا سکتا ہے جب وہ وہ رپورٹر سے کہتی ہے کہ ’’میری بدقسمتی ہے جو میں ہاتھرس کے اس پروگرا م میں شریک نہ ہوسکی، کاش میں اسی میں مر جاتی‘‘۔ رپوٹر سوال کرتی ہے کہ اب تو آپ کا بابا فرار ہے؟ وہ خاتون جواب دیتی ہے کہ ’’میں نے جس کو پرماتما کا درجہ دیا ہے۔ اس کی شرن (پناہ) میں جانے کے بعد کیا بچتا ہے؟‘‘۔ صحافی کا سوال آتا ہے کہ یہ تو اندھ و شواس ہے؟ وہ جواب دیتی ہے کہ ’’آپ کی نظر میں یہ اندھی عقیدت ہوگی، میری نظر میں یہ شردھا ہے اور ائے بیٹی! میری آنکھیں بند نہیں ہیں‘‘
اس قدر ذہنوں کا سحرزدہ ہو جانا اور شکست خوردہ اور کند ہو جانا ظاہر کرتا ہے لوگوں کو ایک مخصوص خوراک دیش دھرم کے نام پر پلائی گئی ہے اور اب وہ اپنے بلکہ اپنوں کے کسی اور کے بھلے بُرے کو سمجھنے کا شعور بھی کھو چکے ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے ایک طویل جدو جہد درکار ہے۔
مانا کہ اس رجحان کے خلاف کام کرنے اور آواز اٹھانے والے بھی اسی سماج میں موجود ہیں۔ مہاراشٹر میں نریندر دابھولکر (مقتول 20 اگست 2013) جیسے کارکنوں کی کوششوں سے ایک انتہائی اہم قانون "اندھ وشواس مخالف کالا جادو روک تھام قانون” پاس ہوا تھا اور دیگر ریاستوں میں اسی نوعیت کے قوانین بھی ہیں۔
لیکن عوام میں بیداری کے لیے ملت کے ذمہ داروں، تنظیموں اور جماعتوں سمیت مختلف این جی اوز کے نیٹ ورک کو اس کام میں لگانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ انسانوں کو انسانوں کی ہر طرح کی غلامی اور تمام زنجیروں سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہو جائیں۔ انہیں زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد لوگوں کو بتانے کے ساتھ ساتھ اصل فلاح و کامیابی کے تصور سے مخلوقِ خدا کو واقف کرانے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ مخلوق کے آگے سجدہ ریز ہونے کے بجائے خالق کے آگے سجدہ ریز ہونے کی تعلیم عام کرنا ہوگا۔ یہی قوم و ملت کے حق میں سب سے بہتر کام ہے، یہی حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے اور یہی شریعت محمدی کی راہ بھی ہے۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات