اداریہ

دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

نئی پارلیمنٹ کے آغاز سے جو تیور اپوزیشن نے اور جواباً حکمراں پارٹی نے دکھائے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ اس بار مقابلہ برابری کی سطح سے ہوگا۔ راہل گاندھی، اکھلیش یادو اور کئی اپوزیشن ممبران نے آئین کو ہاتھ میں اٹھاکر حلف لیا اور اپنی تقاریر اور بیانات سے حکمران جماعت پر یہ واضح کردیا کہ وہ آئین کے خلاف کسی کاروائی اور اقدام کو اب برداشت نہیں کریں گے۔ اسی طرح نو منتخب اسپیکر شری اوم برلا کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ واضح کردیا کہ گزشتہ دور کی طرح بے بنیاد طریقہ پر ممبران کی رکنیت منسوخ کرنے یا انھیں لوک سبھا سے غیر معینہ مدت تک معطل کر نے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جواب میں حکمراں جماعت نے بھی اپنے تیور سخت کرتے ہوئے کانگریس پر حملہ تیز کردیا۔
کانگریس پر حملہ کا آغاز خود صدر جمہوریہ ہند کے خطبہ سے ہوا- محترمہ مرمو نے 49 سال پیشتر وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ذریعہ نافذ کی گئی ایمرجنسی کاذکر کرتے ہوئے کانگریس پر تنقید کی۔ بعد ازاں وزیر اعظم نریندر مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ ایکس‘ پر کئی میسجز کرتے ہوئے کانگریس پر ایمرجنسی کے ذریعہ لوگوں کی آزادیاں سلب کرنے، بنیادی حقوق پامال کرنے، میڈیا کی آزادی سلب کرنے اور دستور ہند کو پامال کرنے کے الزامات لگائے۔ اسی طرح ریاستوں کی وفاقی حیثیت کو سلب کرنے کا بھی الزام لگایا۔ایمرجنسی کی جتنی بھی تنقید کی جائے کم ہے تاہم یہ واقعہ 49 سال پرانا ہے، کانگریس کو اس کی سزا یہ ملی تھی کہ ایمرجنسی کے فوری بعد ہوئے انتخابات میں اسے بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا بعد ازاں کانگریس نے عوامی طور پر اس کی معافی بھی مانگ لی تھی۔
لیکن کون نہیں جانتا کہ گزشتہ دس سال سے ملک میں غیر اعلانیہ ایمر جنسی نافذ ہے۔ حکومت پر تنقید کرنے والوں کو حکومت کے عتاب کا شکار ہونا پڑتا ہے، چاہے وہ صحافی ہوں یا سیاست دان، چاہے سول سوسائٹی سے وابستہ افراد ہوں یا طلبہ۔ انہیں کالے قوانین کے تحت گرفتار کرکے کئی کئی سال تک داخلِ زندان کردیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ سے کئی اہم قوانین بغیر کسی بحث و مباحثہ کے صرف اکثریت کے بل بوتے پر منظور کرلئے جاتے ہیں۔ جھوٹے مقدمات کی بنیاد پر ممبران پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ کردی گئی یا انہیں معطل کردیا گیا۔ حزب اختلاف کے خلاف ای ڈی اور سی بی آئی کے چھاپےمعمول بن گئے۔آج بھی صرف ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ ہی نہیں بلکہ وزائے اعلیٰ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دئے گئے ہیں ۔ایم ایل ایز کی خرید و فروخت معمول بن گئی اور پارٹیوں کو بیچ سے توڑدیا گیا اور اپنی حکومتیں بنالی گئیں۔ خود مختار جمہوری اداروں کی آزادیاں سلب کرلی گئیں یہاں تک کہ عدالتی نظام تک مفلوج کردیا گیا۔ مودی جی سے ہم کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کس منہ سے ایمرجنسی پر تنقید کرسکتے ہیں جب کہ اس وقت ملک ایمرجنسی سے بھی بدتر ین حالات سے گزرہا ہے۔ایسے میں ہم صرف اتنا ہی کہیں گے کہ
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ