اداریہ

NEETگھوٹالوں کا جنجال

میڈیکل داخلوں کے مرکزی امتحان نیٹ (NEET) کے انعقاد اور امتحانی پرچوں کی جانچ نیز ما بعد جانچ، اس پورے معاملے سے نمٹنے میں مرکزی حکومت اور بالخصوص وزارت تعلیم نے انتہائی درجے کی غیر ذمہ داری، بے حسی اور تانا شاہی کے رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2007 سے قبل ایم بی بی ایس (MBBS) داخلوں کے امتحانات ریاستی سطح پر منعقد کیے جاتے تھے۔ مختلف ریاستیں ایک ڈاکٹر بنانے میں اوسطاً پچاس لاکھ روپے تعلیم اور ما بعد انٹرنشپ کی خاطر طالب علم پر بہت سارا پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ سابقہ مودی قیادت والی حکومت نے ایک فرمان جاری کر کے ریاستوں کا امتحان منعقد کرنے کا حق چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ اس اقدام نے ابتداء سے ہی ریاستی اور وفاقی نظام حکومت کے بیچ ٹکراؤ کی صورت اختیار کر لی تھی۔ تمل ناڈو میں مشترکہ نیٹ (NEET) امتحانات کی شدید مخالفت شروع ہوئی جہاں طلباء و طالبات نے اس امتحان کی ناقص کارکردگی پر غم و غصے کا مسلسل اظہار کیا جس کی انتہائی شکل یہ دیکھی گئی کہ خودکشیاں بھی ہونے لگیں۔ تمل ناڑو حکومت بھی طلباء کے حق میں متحرک ہوکر مرکزی حکومت سے نیٹ (NEET) کی مرکزیت کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔ بعدہ راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی نے اس موضوع کو اچک لیا اور حکومت سے پارلیمنٹ کے ایوان کے اندر اور باہر دو دو ہاتھ کرنے کی تیاری کرنے لگے۔ اسی دوران نیٹ (NEET) کا پرچہ لیک ہونے کی واردات نے پورے ملک کے ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا۔ مختلف طلباء نوجوانوں کی تنظیموں اور دیگر افراد نے سڑک سے لے کر عدالت تک کی خاک چھانی۔ اسلام پسند طلباء کی سب سے بڑی تنظیم اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا ( SIO) نے جمہوری احتجاجات کے ساتھ ساتھ قانونی چیلنج بھی کر دیا ہے۔
تازہ ترین معاملے میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے باضابطہ وزیر اعظم نریندر مودی کو مکتوب روانہ کر کے (NEET) امتحانات کا انعقاد حسب سابق ریاستوں کے اختیار میں دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (NTA) کو طبی اور اس قسم کے دیگر متعدد امتحانات منعقد کروانے کا اختیار حاصل ہے۔ اس کے اعلیٰ افسروں کی جانب سے پیپر لیک اور نشانات میں دھاندلی، یہاں تک کہ رشوت ستانی کے معاملوں میں ملوث ہونے کی باتیں بھی سامنے آئی ہیں جس سے وزیر تعلیم کے لیے گویا سر منڈاتے ہی اولے پڑنے لگے کے مصداق وزارت کا چارج سنبھالتے ہی ان کے استعفیٰ کے مطالبے نے زور پکڑنا شروع کر دیا۔ چناں چہ انہوں نے این ٹی اے کے سربراہ سبودھ کمار سنگھ کو برطرف کر کے وقتی طور پر اپنی گردن سے چھری ہٹالی ہے. نیٹ (NEET) کی دھاندلیاں کیا کم تھیں کہ نیٹ (NET) امتحان کو بھی اچانک رد کرنے کی ضرورت پیش آگئی۔ یو پی پبلک سروس کمیشن اور مدھیہ پردیش پبلک سروس کمیشن کے پرچے لیک ہونے کی خبروں نے جلتی میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔ واضح ہو کہ بہار، گجرات، مدھیہ پردیش اور ہریانہ وغیرہ سے پرچوں کے لیک ہونے کی یا نقل کروانے کی خبریں اس سے قبل بھی مسلسل آتی رہی ہیں۔ مدھیہ پردیش میں مشہور زمانہ "ویاپم گھپلا” بی جے پی پہلے ہی ہضم کر کے ڈکار بھی لے چکی ہے۔ اب عوام و خواص اور تعلیم سے وابستہ حلقوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ بی جے پی یا ان سے وابستہ پریوار ہی ان معاملوں میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی تار سے جڑا ہوا تو نہیں ہے؟
بہرحال جس طرح کی لیپا پوتی سے کام لیا جا رہا ہے اس نے مرکزی حکومت کے کردار پر داغ ہی لگایا ہے۔ اب اگر پارلیمانی سیشن میں حزب اختلاف آواز اٹھاتا ہے تو تادیبی کارروائی کے نام پر جمہور کا گلا گھونٹنے کا کام نہ ہو بلکہ عوام کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے نیٹ (NEET) کو فوراً ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی سطح کے کارندے افسران یا سیاست داں تعلیم میں بدعنوانی کے مرتکب پائے جائیں تو گہری جانچ اور اگر قصور وار پائے جائی تو انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ورنہ ملک کے اعلی اور پیشہ ورانہ طلبائی ذہن کا بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت کے لیے جانے کا سلسلہ نہیں رک پائے گا جو کہ ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے نہایت ہی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ وقت کے رہتے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ساتھ ہی عوام کی آواز بھی بلند سے بلند تر ہوتی رہنی چاہیے۔