پارلیمانی الیکشن کے نتائج پر جو سروے آرہے ہیں اس سے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ بی جے پی کی مایوس کن اور انڈیا الائنس کے حوصلہ افزا کارکردگی میں جن طبقات نےنمایاں کردار اداکیا ہے وہ مسلمانوں، دلت اور پس ماندہ طبقات ہیں۔ بالخصوص اتر پردیش میں بی جے پی کی ناکامی انہی طبقات کی رہین منت ہے۔ اس بار بی جے پی کو اتر پردیش میں 29 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا اور ان مقامات سے بھی وہ ہار گئی جہاں پر اس نے رام مندر اور ہندو مسلم دشمی کا بیانیہ پیدا کر نے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔
دلتوں نے یو پی اور مہاراشٹر میں اپنی پارٹیوں، بہوجن سماج پارٹی، پرکاش امبیڈکر کی ونچت اگھاڑی او ردیگر پارٹیوں سے اپنا ناطہ توڑ کر انڈیا الائنس کو ترجیح دی- اسی طرح پس ماندہ طبقات کی الگ الگ ذاتوں نے بھی اس مرتبہ انڈیا الائنس کے ساتھ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس بار انتخابات میں سب سے زیادہ جوش و خروش مسلمانوں میں دیکھا گیا۔ کڑی دھوپ اور شدید گرمی میں بھی مسلمان مرد و خواتین حتیٰ کہ ضعیف العمر لوگ بھی لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوئے نظر آئے۔ یہاں تک کہ یو پی کے کئی پولنگ بوتھوں پر پولیس و انتظامیہ کا جارحانہ رویہ بھی ان کے پائے استقامت میں لرزش نہ پیدا کر سکا۔
سی ایس ڈی ایس اور لوک نیتی کے یو پی کے انتخابی سروے کے مطابق ریاست میں اس بار بھی ہندوؤں کی اعلیٰ ذات کے ووٹ بی جے پی کے حق میں ہی گئے۔ حالاں کہ یہ کہا یہ جا رہا تھا کہ راجپوتوں کے خلاف گجرات کے ایک بی جے پی رہنما کے بیان سے راجپوت شدید ناراض ہیں۔ ان کے بعض سماجی رہنماؤں نے بھی بڑے سخت بیان دیے تھے، تاہم لوک نیتی کے سروے کے مطابق یوپی میں دس میں سے نو (%89) راجپوتوں کے ووٹ بی جے پی کےحق میں ہی گئے۔ البتہ مسلم اور یادو ووٹوں کی غیر معمولی اکثریت نے توقع کے مطابق اس بار بھی انڈیا الائنس کو ہی ترجیح دی۔ لوک نیتی کے مطابق مسلمانوں کے 92 فیصد اور یادوؤں کے 82 فیصد ووٹ انڈیا الائنس کے حق میں گئے۔ تاہم 15 فیصد یادوؤں کی ترجیح این ڈی اے تھا۔ غیر جاٹو دلت ووٹروں کی بھی پہلی ترجیح انڈیا الائنس ہی بنا۔ لوک نیتی کے مطابق اس بار غیر جاٹو دلت ووٹ کے 56 فیصد لوگوں کی پہلی پسند انڈیا الائنس تھا۔ جاٹوؤں کی پہلی ترجیح تو بی ایس پی ہی تھی (%44) البتہ ان کی 25 فیصد تعداد انڈیا الائنس کے ساتھ گئی۔
یو پی میں ان ذاتوں اور طبقات کی پسند اور ناپسند کی بنیاد کیا تھی؟ اس انتخاب میں بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کی بد حالی اور جمہوری اقدار کی پامالی کے مقابلے میں دوسرے عوامل زیادہ کار فرما رہے، مثلاً او بی سی کے لیے کاسٹ سینسس (مردم شماری) ایک بڑا ایشو تھا، جس کو انڈیا الائنس نے پوری قوت سے اٹھایا اور ان طبقات کو یہ یقین دلایا کہ وہ اگر اقتدار میں آئے تو نہ صرف پورے ملک میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرائی جائے گی بلکہ ریزویشن پر عائد 50 فیصد کی حد ختم کر کے او بی سی طبقات کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔
اسی طرح شاید پہلی بار انتخابات میں دستور کے تحفظ کا مسئلہ پوری شدت سے اٹھا۔ دلتوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کے رہنما ڈاکٹر امبیڈکر نے جو آئین بنایا جس میں دلتوں کو بھی برابری کا درجہ دیا گیا اور پھر اسی کے ساتھ ان کی تعلیمی اور اقتصادی پس ماندگی دور کرنے کے لیے ریزویشن کا اہتمام بھی کیا گیا۔ انڈیا الائنس انہیں یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا کہ بی جے پی کا 400 پار کا نعرہ دراصل دستور میں غیر معمولی ترمیمات کے لیے ہی ہے۔ وہ یہ تعداد حاصل کرنے کے بعد نہ صرف دلتوں کو حاصل دستوری حقوق ختم کر دے گی بلکہ ریزرویشن بھی ان سے چھین لے گی۔ لہٰذا دستور بچانے کے لیے دلت پوری طاقت سےمیدان میں آگئے۔
بی جے پی نے اور خود وزیر اعظم نے اس بار مسلم دشمنی کو پوری انتخابی مہم کا فوکس بنادیا تھا ہندتو کا راگ ہو یا ہندو راشٹر کے قیام کی بات، مسلمانوں کو درانداز (گھس پیٹھیا) یا زیادہ بچے پیدا کرنے والا کہنا ہو، ان سب باتوں نے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کر دیا کہ اگر یہ حکومت برسراقتدار رہتی ہے تو پھر ملک میں ان کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی بن جائے گی۔ بی جے پی حکومت کا گزشتہ دس سال کا ریکارڈ بھی مسلمانوں کے سامنے تھا جس میں کبھی لنچنگ، کبھی گئو کشی کا الزام، کبھی بلڈوزر کی مار، کبھی لو جہاد، کبھی حلال جہاد اور کبھی بزنس جہاد اور کبھی ووٹ جہاد کے نام پر مسلمانوں کو ہندوؤں کا حریف بنایا گیا۔ یہ وہ تمام عوامل تھے جن کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلتوں اور اوبی سی طبقات نے اتر پردیش میں اور بعض دوسری ریاستوں میں بی جے پی کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔
گذشتہ اسٹوری
اگلی اسٹوری