لوک سبھا کے انتخابی نتائج نے حکم راں بی جے پی اور حزب اختلاف کی پارٹیوں کو کئی واضح پیغامات دیے ہیں۔
ملکی عوام نے وزیر اعظم کے غرور و تکبر، فرقہ وارانہ و تخریبی سوچ اور سماج کو منتشر و پارہ پارہ کرنے کی بی جے پی کی پالیسیوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ عوام پارلیمنٹ میں ایک مضبوط حزب اختلاف دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ حکومت اکثریت کے زعم میں من مانی اور عوام دشمن فیصلے نہ کر سکے، جس کی گزشتہ دس سالوں سے متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ جمہوریت کی بقا و استحکام کے لیے بھی قانون ساز اداروں میں مضبوط حزب اختلاف کا پایا جانا از حد ضروری ہے۔
ملک کی عوام نے مذہبی اپیلوں، ہندو راشٹر کے نعروں، رام مندر کی تعمیر کا کریڈٹ لینے کی ہوڑ اور ہندو۔مسلم بیانیوں کو بھی پوری طرح مسترد کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اتر پردیش جہاں پچھلے کئی سالوں سے مسلمانوں کے خلاف متعدد حربے اختیار کیے جاتے رہے ہیں، جس میں مسلم نوجوانوں کی بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتاریاں، مسلمانوں کے مکانوں کو بل ڈوزر کے ذریعے مسمار کیا جانا، مضبوط مسلم سیاسی رہنماؤں کو بے بنیاد الزامات کے تحت سالوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینا، بعض کا پولیس کی موجودگی میں دن دہاڑے قتل اور کسی کا جیل میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جانا بی جے پی کو راس نہیں آیا۔ وہ ایودھیا جہاں بی جے پی نے بابری مسجد کو شہید کیا تھا اور چند دن پہلے اس کی جگہ ایک بڑا رام مندر تعمیر کیا گیا، جسے وہ ہندوؤں کا ایک بڑا تیرتھ استھان بنانا چاہتی تھی وہیں سے وہ بری طرح ہار گئی۔
ان انتخابی نتائج کا بی جے پی کو ایک پیغام یہ بھی ہے کہ وہ ادھر ادھر کی بات کرنے کے بجائے ملک کو درپیش سنگین مسائل پر توجہ دے۔ عوام کو نہ وشو گرو بننے سے کوئی دلچسپی ہے، نہ ہندو مسلم بیانیہ سے، نہ یونیفارم سیول کوڈ ان کی دلچسپی کا موضوع ہے اور نہ ہی وہ ملک کے دستور کے ساتھ کسی قسم کے کھلواڑ کو پسند کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں حکومت سنجیدگی کے ساتھ مہنگائی پر روک لگائے، روزگار کے مواقع فراہم کرے، کسانوں کو ان کا حق دے، خواتین کی عفت و عصمت کو پامال ہونے سے بچائے، جمہوری اداروں کی خود مختاری اور جمہوری آزادیوں کو پامال نہ کرے۔ عوام ملک میں انتشار نہیں امن وامان چاہتے ہیں۔
حزب اختلاف کے لیے بھی ان نتائج میں ایک واضح پیغام ہے، عوام ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ذمہ دار اپوزیشن اور واچ ڈاگ کا رول ادا کریں۔ پارلیمنٹ میں کوئی ایسی قانون سازی نہ ہونے دیں جو عوام کے مفاد کے خلاف ہو۔ عوام کے مسائل کو پوری طاقت کے ساتھ پارلیمنٹ میں اٹھائیں۔
چونکہ یہ پورا الیکشن بی جے پی نے نریندر مودی کے چہرے پر ہی لڑا تھا، اس لیے اس میں ایک واضح پیغام یہ بھی ہے کہ عوام نے مودی کو بطور وزیر اعظم مسترد کر دیا ہے۔ بی جے پی کو اب کسی ایسی شخصیت کو سامنے لانا چاہیے جو ملک کے تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔
گذشتہ اسٹوری