اداریہ

کام ابھی باقی ہے

جس وقت یہ شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہوگا، پارلیمانی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہو گا اور لوگ نتائج کے منتظر ہوں گے۔ اس بار کی انتخابی مہم نے سطحیت، پھوہڑ پن، جھوٹ اور افترا پردازی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود ملک کے وزیر اعظم نے ووٹوں کو پولرائز کرنے کے لیے جس طرح کی بازاری زبان استعمال کی اس نے وزیر اعظم کے منصب کو بری طرح پامال کیا ہے۔ جب رہنما کا یہ حال تھا تو ان کے چیلے چپاٹوں کو تو موقع ہی ہاتھ آگیا اور انہوں نے سوشل میڈیا پر مسلم دشمنی کی تمام حدیں پار کر ڈالیں- دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہریلی، اشتعال انگیز اور بے ہودہ فلموں کی ایک باڑھ آگئی۔ ان اوچھی اور فرقہ وارانہ حرکتوں سے بی جے پی انتخابات میں کتنا فائدہ حاصل کرپائے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے نے غیر مسلموں کی ایک معتدبہ تعداد کو اسلام اور مسلمانوں سے ضرور ہی متنفر کر دیا ہوگا۔ لہٰذا اب اس کے تدارک کے لیے ہر سطح پر سنجیدہ اور منصوبہ بند طریقہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ روایتی اور علامتی انداز میں سدبھاؤنا اور خیر سگالی کے کچھ پروگراموں کا انعقاد اس فرقہ وارانہ زہر کے تدارک کے لیے کافی نہیں ہوگا بلکہ ایک ہمہ جہتی اور ہمہ پہلو منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے جس میں ملت کی ہر جماعت، ہر مکتب فکر کے عمائدین، علما و دانشوروں کی آراء و مشورے شامل ہوں۔ ایک ایسا عملی منصوبہ جس کو بروئے کار لانے میں امت کا ہر فرد شامل ہو۔ مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور بے وقعتی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ملکی سماج کی تشکیل و تعمیر اور عمومی مصیبتوں و پریشانیوں کے ازالہ کی ہر قابل ذکر کوشش سے انہوں نے خود کو الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ فکری اور عملی دونوں سطحوں پر ان کی شرکت بس برائے نام ہی ہے۔ اس بے نیازی اور عدم شرکت کی بنا پر کسی بھی شعبہ زندگی میں مسلمانوں کی اہمیت محسوس نہیں کی جاتی۔ اکا دکا افراد کا ذکر تو مل جاتا ہے مگر بحیثیت مجموعی ان تمام میدانوں میں ملت کی کارکردگی صفر ہے۔
مسلمان خیر امت ہیں، جنہیں پوری انسانیت کے لیے کھڑا کیا گیا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ ہندوستان میں بہ حیثیت خیر امت ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اور کیا واقعی ہم اس کی طرف متوجہ ہیں۔ ہندوستانی سماج لا ینحل مسائل کا شکار ہے۔ کروڑوں لوگ غربت اور افلاس کا شکار ہیں اور ظلم و استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں، خواتین کی عزت و آبرو کی پامالی کے واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے نوجوانوں کو اپنے مستقبل سے مایوس کر دیا ہے۔ کسانوں کو فصلوں کے صحیح دام نہیں ملتے اور بینک سے لیے ہوئے قرض کی عدم ادائیگی انہیں خود کشی پر مجبور کر دیتی ہے۔ لہٰذا ہر سال کسانوں کی خود کشی کا گراف بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ مزدوروں کو نہ تو مناسب اجرت ملتی ہے اور نہ ہی حکومت کی فلاحی اسکیمیں ان تک پہنچ پاتی ہیں۔ حکومت کی اقتصادی پالیسیاں سرمایہ داروں کے مفاد کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعی ملکی پیداور (GDP) میں اضافے کے باوجود عام آدمی کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوتی۔ ملک کے وسائل کی منصفانہ تقسیم کا کوئی منصوبہ اہل اقتدار کے سامنے نہیں ہے۔ اسی طرح بڑھتے ہوئے کنزیومرازم نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے۔
دوسری طرف ہندوستانی معاشرہ متعدد سنگین سماجی مسائل سے بھی دو چار ہے۔ متعدد سماجی برائیاں پورے ملکی سماج کو گِھن کی طرح کھا رہی ہیں۔ شادی بیاہ میں اسراف، جہیز کی لعنت اور بے جا رسومات نے غریب اور متوسط طبقے کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ شراب، ڈرگس اور جوے و سٹے کی لعنت نے نئی نسل کو مفلوج کر دیا ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر چھوت چھات کی لعنت نے پورے سماج کو ارزل واشرف کے خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
قران مجید نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر (بھلائیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا) عدل و قسط کے قیام اور ظلم و استحصال کے خاتمہ کی جدوجہد کو امت مسلمہ کی منصبی ذمہ داریوں میں شمار کیا ہے۔ آج اگر بیس کروڑ کی یہ امت اس ملک میں اپنی منصبی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کر رہی ہوتی تو غیر مسلم اکثریت انہیں ملک پر بوجھ سمجھنے کے بجائے اپنے سروں پر بٹھاتی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ اپنی مطالباتی حیثیت سے باہر نکلے اور اہل اقتدار کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے پالیسی انٹروینشن پر توجہ مرکوز کرے، یعنی ملک کی پالسیوں کو انسانوں کے لیے نفع بخش بنوانے کے لیے ایک متبادل منصوبہ اہل اقتدار کے سامنے رکھے نیز، اس کے لیے تحریک چلائے۔ اس کام میں اسے غیر مسلموں کے صالح عناصر کو بھی اپنے ساتھ لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ معاشرتی مسائل کے حل اور اصلاح کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ، غیر مسلموں کی اصلاحی تنظیموں اور اداروں کو ساتھ لے کر ایک ملک گیر تحریک چلائے۔ اس بات کی کوشش کی جائے کہ ہندوستانی سماج سے ظلم و استحصال، قانون کی پامالی، سرمایہ دارانہ تسلط، غربت، مرض اور جہالت، ذات پات کا ظالمانہ نظام، فرقہ وارانہ بغض و عناد، خواتین کے ساتھ ذلت آمیز سلوک، بد دیانتی اور ہمہ گیر کرپشن جیسے سنگین مسائل سے چھٹکارے کے لیے غیر مسلموں کے ساتھ مل کر عملی جدوجہد کی جائے تاکہ ملک میں ایک پاکیزہ اور عدل و احسان پر مبنی سماج تشکیل پا سکے۔