اداریــــہ

جمہوری روایات کی پامالیوں پر ابھرتی آوازیں

بھارت اپنے آئین اور اصولوں کے اعتبار سے ایک جمہوریت پسند اور مذہباً غیر جانب دار ملک ہے۔ اپنے قیام کے اول روز ہی سے طے کیا گیا کہ یہاں بسنے والے تمام انسانوں کو اظہار خیال کی آزادی حاصل رہے گی، ان کے درمیان مساوات اور بھائی چارہ قائم کیا جائے گا اور ان کے لیے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ملک کے رہنماوں نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ یہاں کسی بھی قسم کی آمرانہ حکومت مسلط نہ ہونے پائے۔ اگر کبھی ایسی صورتِ حال پیدا ہوئی بھی تو سارے ہی ملک کی عوام نے اس کے خلاف جدوجہد کی اور ملک کو اس سے نجات دلانے کی بھر پور کوشش کی۔
پچھلے کچھ عرصے سے ملک میں جمہوریت، آزادی اظہارِ رائے، مذہبی غیر جانب داری جیسے بنیادی اقدار و اصولوں کو پامال کرنے کی منظم کوششیں ہورہی ہیں اور بدقسمتی سے اس وقت ملک کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہے جو فکری و عملی طور پر ان اصولوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ مذہبی غیر جانب داری کے بجائے ایک مخصوص مذہب اور ایک خاص کلچر کو مسلط کرنے کی باقاعدہ کوششیں جاری ہیں۔ ایک پوری قوم کو مذہب کے نام پر جنون میں مبتلا کرکے دوسرے مذاہب کے لوگوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملک اور مذہب کے نام پر لوگوں سے اظہارِ خیال کی آزادی ختم کی جارہی ہے۔ اور یہ سارے ہی اقدامات ملک کو آمرانہ طرز حکومت کی جانب لے جا رہے ہیں۔ اگر یہی صورت حال رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے ملک کی جمہوری روایات ملیامیٹ ہو جائیں گی۔
چوں کہ یہ کام مذہب کا سہارا لے کر کیا جا رہا ہے اس لیے اکثر سیاسی قائدین اس کے خلاف کھل کر آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرتے کہ کہیں اکثریتی رائے دہندگان ان سے ناراض نہ ہو جائیں۔ لیکن پچھلے دنوں مہاراشٹر میں شیوسینا قائد ادھو ٹھاکرے نےاپنے ایک خطاب میں بڑی ہی وضاحت کے ساتھ ملک کی اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے اہل ملک کو متنبہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے سابقہ اتحادی بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوتوا کی آڑ میں ملک کو آمریت کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے بڑی ہی بے باکی کے ساتھ کہا کہ حکم راں جماعت اب محض مودی کے نام پر ہی ووٹ مانگ رہی ہے جو کہ آمریت کی ایک بنیادی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کا ہندوتوا ایک ڈھونگ ہے، وہ ہندوتوا کی آڑ میں ایک آہنی دیوار تیار کر رہے ہیں اور ملک کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے رہے ہیں تاکہ کوئی ان کے خلاف آواز نہ اٹھا سکے۔
ادھو ٹھاکرے کا یہ بیان یقیناً بہت اہم ہے۔ حکم راں جماعت اور اس کی سرپرست تنظیم جس ہندوتوا کی بات کرتی رہتی ہے اور جس تہذیب کو یہاں رائج کرنے کا خواب دیکھتی رہتی ہے اس تہذیب میں کچھ مخصوص طبقات سارے وسائل پر قابض تھے۔ انہوں نے ہزاروں سال تک انسانوں کے مختلف طبقات کو ہر طرح کے حقوق سے محروم کر رکھا تھا، وہ ملک کے مالک اور باقی ساری عوام ان کی غلام تھی۔ عوام کی اکثریت کو نہ بولنے کی آزادی تھی اور نہ ہی علم حاصل کرنے کی۔ ملک کے معماروں نے انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد جو آئین وضع کیا تھا اس میں اس بات کی پوری کوشش کی تھی کہ بھارت نہ صرف انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو بلکہ ملک کی اکثریت اس غلامی سے بھی آزاد ہوجائے جو یہاں کے بے شمار طبقات پر ہزاروں سال سے مسلط ہے۔ اسی دلیل کی بناء پر ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر سیاسی آزادی سے زیادہ "سماجی آزادی” کو اہمیت دیتے تھے، لیکن اب ایک حلقہ اپنے قدیم مذہب کا سہارا لے کر ملک اور یہاں کے عوام کو دوبارہ اسی غلامی میں لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مہاراشٹر کے علاوہ تمل ناڈو اور بہار کے بعد اتر پردیش کے سابق وزیر اعلٰی اکھیلش یادو نے بھی ایک جرأت مندانہ بیان دیا ہے کہ "بی جے پی ہم سب کو شودر مانتی ہے اور دلتوں اور ہم کو عبادت گاہوں میں جانے سے روک دیا جا رہا ہے۔ وہ یاد رکھیں کہ وقت بدلتا ہے اور انہیں بھی پتہ لگ جائے گا۔”
ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس صورت حال کا سخت نوٹس لینا چاہیے۔ ادھو ٹھاکرے اور ان جیسی دیگر آوازوں کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ ہمارا ملک کسی بھی قسم کی آمریت کی لعنت سے محفوظ رہ سکے۔