آزاد ہندوستان کے عوام و خواص گزشتہ پچھتر سال سے عام انتخابات کی مہم کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بڑی بڑی سنسنی خیز مہمات بھی انہوں نے دیکھی ہیں لیکن 2024 کی یہ مہم جس طرز پر جاری ہے اس کا مشاہدہ نہیں کیا ہوگا۔ زبان و بیان کے لحاظ سے یہ سب سے گھٹیا مہم ہے۔ اس مہم کی قیادت بھی وزیر اعظم ہی کررہے ہیں جس طرح وہ جملہ مہمات کی قیادت کرتے ہیں مثلاً چھوٹی بڑی ٹرینوں کا افتتاح، چھوٹے بڑے مندروں کا ادگھاٹن، پارلیمنٹ ہاوس کی تعمیر کا افتتاح، کھیلوں کا افتتاح وغیرہ وغیرہ۔ اس انتخابی مہم میں گھٹیا زبان کا استعمال بھی سب سے پہلے انہوں نے ہی کیا ہے۔ انہوں نے کچھ افراد، کچھ پارٹیوں، کچھ خاندانوں اور کچھ سماجی گروپوں کو ہدف بنا رکھا ہے۔ پنڈت نہرو کا خاندان ان کے خاص نشانے پر ہے۔ اس خاندان کو وہ نام لے لے کر برا بھلا کہتے ہیں۔ راہل گاندھی کو وہ مورکھوں کا سردار، سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والا، اپنے خاندان کے لیے دولت کے انبار جمع کرنے والا اور شہزادہ کہتے ہیں۔ راہل کے لیے شہزادے کا لفظ انہوں نے پاکستان کے لیے تخلیق کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان راہل کو شہزادہ سمجھتا ہے اور اسے وزیر اعظم بنانا چاہتا ہے۔ اس طرح انہوں نے ہندوستانی انتخابی مہم میں اب پاکستان کو بھی گھسیٹ لیا ہے۔ دو دن قبل انہوں نے گجرات میں کہا کہ چونکہ کانگریس اب ”کمزور“ ہوچکی ہے اس لیے پاکستان اس کی مدد کو آ رہا ہے اور راہل کو وزیر اعظم بنانا چاہتا ہے۔ پی ایم نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستان کانگریس کی مدد کیوں کرنا چاہتا ہے حالانکہ پاکستان کو دو لخت کرنے کا کام تو کانگریس ہی نے کیا ہے۔ اور یہ حقیقت تو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ بی جے پی ان انتخابات میں مسلمانوں کی مذمت کر کے کامیاب ہونا چاہتی ہے۔ ابھی چند روز قبل راجستھان میں پی ایم مودی نے کہا کہ کانگریس امیروں کی دولت سمیٹ کر مسلمانوں کو دے دینا چاہتی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ ملک کی دولت پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ اس بیان میں انہوں نے مسلمانوں کو گھس پیٹیے بھی کہا ہے۔
سخت زبان اس مہم میں اپوزیشن لیڈر بھی استعمال کر رہے ہیں لیکن وہ بڑی حدتک اخلاقی دائرے میں رہتے ہیں۔ جبکہ بی جے پی والے سیاست میں اخلاقیات کے قائل نہیں ہیں۔ نہ ان کے چھوٹے نہ ان کے بڑے۔ چھوٹے تو پارلیمنٹ کے اندر کارروائی کے دوران مخالف پارٹیوں کے لیڈروں کو مغلظات بکتے ہیں اور بڑے انہیں کچھ نہیں کہتے۔ ایک انوکھی بات اس الیکشن میں یہ بھی دیکھی جا رہی ہے کہ حکم راں پارٹی اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کا کبھی جواب نہیں دیتی، اس لیے نہیں کہ یہ کوئی بہت شریف پارٹی ہے۔ الزامات اور جوابی الزامات میں نہیں الجھنا چاہتی بلکہ اس لیے کہ ان الزامات کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ گویا وہ خاموش رہ کر اپنی شرافت کا جواب دیتی ہے۔ سرمایہ دار اڈانی اور پی ایم کے تال میل کی پوری دنیا میں مذمت ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر راہل گاندھی نے کوئی نکتہ نہیں چھوڑا جو مودی اور اڈانی کے درمیان پایا جاتا ہے لیکن دونوں میں سے کسی نے اس کا جواب نہیں دیا۔ اس لیے کہ جواب دینے کی پوزیشن میں وہ ہیں ہی نہیں۔ اسی طرح منی پور کے سانحے کی پوری دنیا نے مذمت کی، اندرون ملک بھی بہت کچھ کہا گیا لیکن پی ایم کا منہ نہیں کھلا۔ پہلوان لڑکیوں کے ساتھ ایک لیڈر کی بدتمیزی دنیا بھر میں مشہور ہوگئی لیکن حکم راں پارٹی خاموش رہی۔ ایسے سیکڑوں واقعات ہیں جو گزشتہ دس برسوں میں رونما ہوئے لیکن حکومت کچھ نہیں بولی۔ اس کے نزدیک ان باتوں کا واحد جواب اپوزیشن لیڈروں کی مذمت کرنا، انہیں ڈرانا دھمکانا ہے۔ مسلمانوں اور کمزور سماجی طبقات کو دبانے کے علاوہ الیکشن جیتنے کا دوسرا بڑا ذریعہ بی جے پی کے پاس ای وی ایم ہے یعنی ووٹ جمع کرنے اور گننے کی مشین۔ اور یہ بہت ہی مضبوط حربہ ہے۔ ساری کی ساری سرکاری مشینری اس سلسلہ میں حکومت کے تابع ہے۔ اس کے خلاف کوئی منہ نہیں کھولتا۔ گمان ہے کہ حکومت اسی حربے کے سہارے اپنا کام کر جائے گی۔
ویسے حکومت کے پاس حربے اور بھی بہت سارے ہیں۔ فی زمانہ اس کے پاس ای ڈی (انفورسمنٹ ڈرائکٹوریٹ) ہے جس نے تقریباً تمام ہی پارٹیوں کا دم اکھاڑ رکھا ہے۔ پھر سی بی آئی ہے جو حکومت کے زیر اثر کام کرتی ہے۔ اس کے بعد محکمہ پولیس ہے، خاص طور سے دلی پولیس جو مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے اور اس وقت مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ ہیں جو پی ایم کے دست راست ہیں۔ انہوں نے اس سے اپوزیشن لیڈروں کے خلاف خوب کام لیا اور لے رہے ہیں۔ ای ڈی اور سی بی آئی کا خوف دلا کر بہت سے اپوزیشن لیڈروں کو پی ایم نے دبا رکھا ہے جن میں نمایاں نام بہوجن لیڈر مایاوتی کا آتا ہے۔ مایاوتی مودی کی گرفت سے نکل نہیں سکتیں چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ تو یہ ہیں وہ حقائق جن سے پی ایم بے فکر ہیں۔ انہیں کسی بات کا ڈر نہیں۔ بعض معاملات میں سپریم کورٹ اپنی طاقت دکھاتی ہے لیکن رام مندر، گیان واپی مسجد، متھرا کی عیدگاہ جیسے معاملات میں اس کی خاموشی معنی خیز بن جاتی ہے۔ بعض مبصرین اور دانشوروں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اگر مودی یہ الیکشن دھونس دھاندلی وغیرہ کر کے جیت گئے تو اس کے بعد کبھی کوئی الیکشن نہیں ہو گا۔ جمہوریت ختم ہوجائے گی۔ صرف چند لوگوں کی ڈکٹیٹرشپ چلے گی اور یہ سارے کام دھرم کے نام پر کیے جائیں گے۔ سوشل میڈیا پر بڑے بڑے مبصر یہ پیشن گوئی کر رہے ہیں۔ اسی لیے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے متعدد وکیل اصرار کر رہے ہیں کہ یہ الیکشن ای وی ایم کے ذریعے ہرگز نہ ہوں۔ اس کی جگہ روایتی بیلٹ پیپر استعمال کیا جائے۔ لیکن۔۔ تعداد کے لحاظ سے دلت طبقات، آدی واسی، او بی سی اور مسلمانوں کی تعداد میں سے زیادہ ہے۔ اگر وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے تو اس دھاندلی کو روکا جاسکتا ہے لیکن دلتوں کو سرکار نے نوکریوں اور تعلیم میں ریزرویشن دے کر خاموش کر دیا ہے وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ مایاوتی کو مقدمات میں الجھا دیا ہے۔ وہ حکومت کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتیں۔ اب رہے باقی ماندہ لوگ، تو زیادہ تر غریب، پس ماندہ اور او بی سی ہیں تو دیکھا جائے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔
گذشتہ اسٹوری