محترم قارئین! ہماری زندگیوں میں ایک اور ماہ رمضان آیا تھا جو اب بڑی تیزی کے ساتھ اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے۔ جس وقت یہ سطور آپ تک پڑھ رہے ہوں گے، عیدالفطر کی خوشیاں منائی جا رہی ہوں گی۔ ہم نے اس ایک ماہ کے دوران روزوں، نمازوں، دعاوں اور قرآن کی تلاوت اور تفہیم کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی۔ وہ لوگ بڑے ہی بدنصیب ہیں جو اس سعادت سے محروم رہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ رمضان تقویٰ کا مہینہ ہے اور یہ صبر کا مہینہ بھی ہے۔ ایک مومن بندہ اس ماہ کے دوران مختلف نیک اعمال کے ذریعے اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے اندر تقویٰ اور صبر کی صفات کو پروان چڑھائے۔ تقویٰ دراصل اپنے دامن کو برائیوں بچاتے ہوئے زندگی گزارنے کا نام ہے۔ زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے، اس میں ہر طرف خواہشات و میلاناتِ نفس، وسوسے و ترغیبات، مختلف قسم کی گمراہیاں اور نا فرمانیاں اپنی پوری آب و تاب اور بھر پور کشش کے ساتھ موجود ہیں۔ ان سب سے اپنا دامن بچاتے ہوئے زندگی گزارنا اور اطاعت حق کی راہ پر اپنے آپ کو جمائے رکھنا ہی تقویٰ ہے۔یہ تقویٰ ہی دراصل اسلامی سیرت و کردار کی جان ہے، اسلام اپنے ماننے والوں کے اندر جس قسم کا کردار پیدا کرنا چاہتا ہے اس کا اسلامی تصور اسی تقویٰ کے لفظ میں پوشید ہے۔ اور اسی تقویٰ کو پید ا کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نے رمضان کے یہ روزے ہم پر فرض کیے ہیں۔ اگر ہم روزے کے اس مقصد کو سمجھیں اور جو کیفیت رمضان کے روزوں کے ذریعے اللہ تعالٰی ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے اس کے لیے تیار بھی ہوں تو اس رمضان سے ہمیں وہ فائدہ حاصل ہوسکتا ہے جو اس کا مقصد ہے۔ چوں کہ رمضان کے دوران امت مسلمہ کا پورا اجتماعی ماحول بھی انسانوں کو تقویٰ کے اس کام کے لیے تیار کرتا ہے لیکن اگر کوئی اس مقصد کو پیش نظر نہ رکھے اور اصل مقصد سے غافل ہو جائے تو پھر ایسے شخص کو دن کی بھوک اور راتوں کے جاگنے کے علاوہ کچھ اور حاصل نہیں ہوسکتا۔
رمضان کا یہ مہینہ انسانوں کو اپنے اندر صبر و ضبط کی عظیم صفت کو فروغ دینے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔چوں کہ اللہ تعالٰی نے روزوں کے ذریعے انسانی کی دو بنیادی عوامل، بھوک اور جنسی خواہش کو ایک متعینہ وقت تک روک لگا کر ان پر کنٹرول حاصل کرنے کی انسانوں کو تربیت دی ہے۔ چنانچہ اس تربیت کے نتیجے میں انسان کے اندر صبر و ضبط کی عظیم صفت پیدا ہوتی ہے اور وہ ہر مشکل اور پیچیدہ صورت حال میں اپنے آپ کو ایمان کی راستے پر رکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ ہم اس رمضان کے دوران بھی تقویٰ اور صبر کی اس تربیت کے سالانہ کورس سے گزر کر انعام کے طور پر عید کی مسرتوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔یقیناً قابل مبارکباد ہیں وہ تمام اہل ایمان جنہوں نے رمضان اور اس کے روزوں کے مقصد کو پیش نظر رکھا اور اس ماہ مبارک کو اپنی تربیت، تزکیہ اور حصول تقویٰ کے کاموں میں صرف کیا، کیوں کہ عید کی خوشیاں منانے کے اصل حق دار تو وہی لوگ ہیں۔
محترم قارئین! آج ہم جن حالات میں عید الفطر منا رہے ہیں وہ امت مسلمہ کے لیے نہایت صبر آزما اور آزمائشی بھی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ امید و حوصلہ دینے والے بھی ہیں ۔امت نے ان صبر آزما حالات میں بھی رمضان المبارک اور اس کی سرگرمیوں کو جس اہتمام کے ساتھ انجام دیا ہے وہ بہت ہی امید افزا ہے۔ فلسطین میں اہل غزہ پر اسرائیل کی جانب سے جو جنگ مسلط کی گئی ہے اور جس طرح وہ پورے غزہ کو مسلسل تباہ و تاراج کر رہا ہے، لیکن اس کے باوجود فلسطینی مجاہدین میں نہ تو مایوسی ہے اور نہ پست ہمتی بلکہ اس ناقابل یقین صورت حال میں بھی وہاں کے مسلمانوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ رمضان اور اس کی سرگرمیوں کو انجام دیا ہے۔ یہ امت کی زندگی کی علامت ہے۔ یقیناً اس موقع پر غزہ میں شہید اور زخمی ہونے والے مسلمان بچوں، عورتوں، بیماروں اور نہتے لوگوں کے لیے ہمارے دل غم گین ہیں۔ رمضان اور عید کے ان لمحات میں ہمارے دل ان کے لیے بے چین ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ ان پر اپنی سکینت نازل فرمائے اور ان کی قربانیوں کا بہترین بدلہ دنیا و آخرت میں انہیں عطا کرے۔
ملک عزیز کے حالات بھی اگرچہ تشویش ناک ہیں لیکن مسلمانوں کے لیے ان میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ رمضان کے دوران تقویٰ و صبر کی جو تربیت انہوں نے حاصل کی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں۔ مسلمان اس وقت جن حالات سے گزر رہے ہیں، ماضی میں انہوں نے اس سے بھی زیادہ سنگین حالات کا مقابلہ کیا ہے اور سرخ رو ہوئے ہیں۔ عید کے اس موقع پر ہم ان لوگوں کو یاد رکھیں جن پر اس دوران ظلم ڈھائے گئے، ان کے گھر اجاڑدیے گئے اور جنہیں بے قصور جیلوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ انہیں حوصلہ دیا جائے اور انہیں اپنی دعاوں میں یاد رکھا جائے۔ رمضان کے اس ماہ نے جس تقویٰ و صبر کی ہمیں تربیت دی ہے اس کو برتنے کا یہ وقت ہے۔ اگر ہم زندگی کے ہر معاملے میں ان صفات کو اپنائیں گے تو کامیابی و سرخ روئی ہمارا مقدر ہوگی۔ ان شاء اللہ