74ویں یومِ جمہوریہ کے موقع پر ہمیں اپنی قومی زندگی کا احتساب کرنا تھا لیکن اس کو منانے سے عین قبل بی بی سی اور ’آکسفام‘ نے ملک کے عوام کو بحثوں میں الجھا دیا ہے۔ حالانکہ احتساب میں ان موضوعات پر سنجیدہ گفتگو ہوتی تو وہ بھی مطلوب تھا۔ لیکن ملک میں سیاسی اور سماجی زندگی میں جس طرح کی سطحیت پیدا ہو گئی ہے اس کے مد نظر ان عالمی اداروں کے ذریعے اٹھائے گئے موضوعات پر بھی گفتگوؤں کا انداز وہی دکھائی دے رہا ہے جو فریقین کو آمنے سامنے لا کھڑا کرنے والا ہوتا ہے۔ ایک فریق سرکاری لائن لیتا اور دوسرا ملک دشمن قرار پاتا ہے۔
آکسفورڈ کمیٹی فار فیمائین ریلیف سنہ 1942 میں قائم شدہ اور سنہ 1995 میں آکسفام انٹرنیشنل اور پھر سنہ 2008 میں آکسفام انڈیا کے نام سے موسوم یہ این جی او عدم مساوات، غربت اور نا انصافی کو ختم کرنے والی زمینی سطح سے وابستہ ایک تحریک بتائی جاتی ہے۔ اس این جی او کا ماننا ہے کہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہونے کے باوجود بھارت میں غربت اور قلتِ غذائیت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ گزشتہ برسوں میں ان کی رپورٹوں میں ملک کی غربت اور معاشی نابرابری کی جانب اسی انداز میں توجہ دہانی کرائی جاتی رہی ہے۔ حزب اختلاف نے حکومت کو بجا طور پر مشورہ دیا ہے کہ ان عالمی جائزہ رپورٹوں کے بعد ہی سہی ملک کے امیروں پر زیادہ ٹیکس عائد کرے اور ’مٹھی بھر لوگوں’ کے لیے کام کرنا بند کر دے۔
دوسری جانب توقع کے مطابق بی بی سی کی دستاویزی فلم ’’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘‘ کو ’بدنامی’ پر مبنی قرار دیا گیا۔ موجودہ وزیر اعظم اور ما بعد گودھرا تشدد اور قتلِ عام کے وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے ‘مشکوک رول’ کو اجاگر کرنے والی یہ ڈاکیومنٹری فلم کتنی غیر جانبدار ہے اس پر برسر اقتدار طبقہ سوال ضرور اٹھا سکتا ہے لیکن 20 جنوری کو اس فلم کی تمام یو ٹیوب اور ٹویٹر لِنک کو ہٹانے کی کارروائی نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کہیں داڑھی میں تنکا تو نہیں ہے؟ مانا کہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے براہ راست گجرات حکومت کے ملوث ہونے کے الزام کو تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی نصیحت کہ حکمراں کو ’راج دھرم کا پالن’ کرنا چاہیے ان کے استعفے کے لیے کافی ہونا چاہیے تھا، خاص طور پر اس پارٹی کے لیے جو خود کو ’پارٹی وِتھ اے ڈِفرنس’ کہا کرتی تھی، اپنی مفروضہ اخلاقی پوزیشن کے مقابلے میں کرسی سے چپکنے والا رویہ بدستور جاری ہے۔ اس کے لیے سابقہ کسی بھی حکومت کی مثال پیش کرنا انتہائی نامعقول رویہ ہے۔ اگر دھرم اور رام راج کے نام لیوا بھی اقدار و اصول سے عاری سیاست روا رکھیں گے تو بہتر ہوگا کہ وہ چہرے سے مکھوٹا اتار کر عوام کے سامنے اپنے اصلی چہرہ کو پیش کریں، پھر ووٹ مانگیں۔ دوسری جانب ایمرجنسی، سکھ مخالف فسادات، بابری مسجد کی شہادت اور بم دھماکوں اور اس کے رد عمل میں فرقہ وارانہ فسادات سے بالآخر فائدہ کس طبقے نے اٹھایا اور ملک کی معاشی اور تعلیمی ترقی میں سابقہ کے صحیح و غلط فیصلوں کا جائزہ لیتے وقت تمام سیاسی پہلوؤں پر سیر حاصل بحثوں کی ضرورت ہے۔ ملک کے آئین کو درپیش خطرات اور اندیشے ایک طرف تو ملک کو ’وِشو گرو’ بنانے اور سابقہ غلامی کی نشانیوں کو مٹانے اور مبینہ خارجی ’حملہ آوروں‘ کے مقابلے میں ’دیسی’ حکمرانوں کی حمایت میں سماج اور میڈیا کو پشت پناہی کے لیے کہنا سب ان کو اسی ملکی آئین کی بدولت حاصل شدہ حق ہے۔ البتہ بحث ہونی چاہیے کہ اس آئین کی روح کو بتدریج ختم کرنا یا اس کو کسی خیالی ’سناتنی اور ویدیک’ نظام میں رفتہ رفتہ تبدیل کرنا کیا ملک اور قوم کے حق میں بہتر ہوگا اور کیا متنوع، ہمہ مذہبی، ہمہ ثقافتی معاشرہ اس کے بعد باقی رہ پائے گا؟
توہم پرست کراماتی باباؤں اور نفرتی ٹولیوں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہمارے معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے کو جوڑنے والی کوششوں کا مناسب ذکر قومی بحث میں آنا چاہیے۔ ہمارے ملی اداروں کو بھی ان بحثوں میں مکمل اعتماد کے ساتھ شریک ہونا چاہیے اور ہمارے ملی میڈیا کو بھی قومی زندگی کی تشکیل میں اپنا تعمیری کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے انھیں اپنے حوصلوں کو برقرار رکھنا ہے۔ ملت کو اپنے داخلی معاملات و مسائل سے اوپر اٹھ کر ملک اور قوم کو درپیش ہمہ جہت مسائل میں پر اعتماد انداز میں دلچسپی لینا اور ان کے حل کے لیے سرگرم ہونا ہے۔ خدائی نظام کی افادیت اور برتری کو دیگر انسانی نظاموں کے نقائص کو اجاگر کرنے کی ہمت کا مظاہرہ کرنا ہمارا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ ہماری شاندار تاریخ کے ذکر کے ساتھ ہی قومی اور ملی یا دینی پہلوؤں سے کسی خامی اور کمزوری کا دفاع کرنے کی ہمیں چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے دین نے ہمیں واضح تعلیم دی ہے کہ ہم ہر حال میں ’عدل و انصاف’ کے علم بردار بنے رہیں چاہے ہماری سچی گواہی کی زد ہمارے اپنوں ہی پر کیوں نہ پڑے! یوم جمہوریہ کے لیے عوامی شمولیت کی اپیل کے ساتھ ساتھ سرکاری پورٹل مائی گُوو ڈاٹ اِن پر ہمارے وزیرِ اعظم صاحب کے دستخط کے ساتھ ایک قول نمایاں منقول ہے کہ ’’ملک کی خدمت میں اپنی جانیں قربان کرنے والے بہادر مرد اور خواتین کے تئیں بھارت ہمیشہ احسان مند رہے گا۔ ان کی مثالی خدمات کروڑوں بھارتیوں کو تحریک دیتی رہیں گی’’ لیکن عملا حکومت ملک کی اقلیتوں، آدی باسیوں، دلتوں اور سماجی اور معاشی طور پر کمزور طبقات کو مزید حاشیہ پر دھکیل رہی ہے۔ اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ ملک کی سالمیت، یکجہتی اور اس کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے، اور اس کی فکر ملک کے مسلمانوں کو اتنی ہی ہے جتنی کسی اور کو ہو سکتی ہے۔ ان کی اس فکرمندی کو ڈر کا نام ہرگز نہیں دیا جاسکتا اس لیے کہ خدائے واحد پر ایمان رکھنے والے کسی سے ڈرتے نہیں ہیں۔
گذشتہ اسٹوری