گزشتہ ہفتے ہمارے ملک کی ایک شمالی ریاست اتر اکھنڈ کے شہر ہلدوانی میں اچانک پھوٹ پڑنے والے تشدد کی وجہ سے کم ازکم پانچ افراد ہلاک اور ساٹھ سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ یہ تشدد اس وقت پھوٹ پڑا جب یہاں کے بلدی حکام کی جانب سے ایک مدرسے اور مسجد کو بلڈوزر سے منہدم کر دیا گیا۔ مقامی عوام کی جانب سے اس اچانک انہدامی کارروائی کے خلاف احتجاج کیا گیا جس پر پولیس نے انتہائی بربریت کا مظاہرہ کیا نتیجے میں پانچ مسلمانوں کی جان چلی گئی۔ ہلدوانی کے بلدی حکام نے جس مدرسے کو منہدم کیا ہے وہ ریلوے اسٹیشن سے متصل اسی کالونی میں واقع ہے جس میں کم و بیش چالیس ہزار افراد رہتے ہیں۔ گزشتہ برس اس پوری بستی کے انہدام کی کوشش کی گئی تھی، بعد میں جب یہ تنازعہ سپریم کورٹ میں پیش ہوا تب اس نے اس کارروائی پر روک لگا دی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کی زمین پر غیر مجاز قبضے کا یہ تنازعہ ابھی بھی عدالت میں زیر التوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اچانک اس مدرسے کو منہدم کر دیا گیا جسے فرقہ ورانہ تفریق پیدا کرنے کی ایک انتہائی بھونڈی کوشش کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
حالیہ عرصے کے دوران ملک کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو غیر قانونی طور پر منہدم کرنے کی کارروائیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ دنوں اس سلسلے میں دو رپورٹیں جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی انہدامی کارروائیوں پر فوری روک لگنا چاہیے۔ ایمنسٹی کی تحقیق کے مطابق محض اپریل 2022 سے جون 2022 کے دوران ملک کی پانچ ریاستوں میں اس طرح کی انہدامی کارروائیاں انجام دی گئی ہیں جو تمام کی تمام فرقہ ورانہ تشدد یا مسلمانوں کی جانب سے کسی احتجاج کے بعد ہوئی ہیں تاکہ ان لوگوں کو سزا دی جائے جو ان واقعات میں شامل تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں منہدم کی گئی 128 عمارتوں کی تفصیل پیش کی گئی ہے جس میں کم از کم 33 مرتبہ بلڈوزر کا بے تحاشا استعمال کیا گیا۔ اور ان انہدامی کارروائیوں سے سیکڑوں افراد بے گھر یا بے روزگار ہوگئے۔ بے جے پی کی زیر اقتدار ریاست مدھیہ پردیش ان واقعات میں سرفہرست ہے۔ اگرچہ یہ انہدامی کارروائیاں غیر مجاز تعمیرات کو ہٹانے کے نام پر کی جاتی ہیں لیکن ان کا وقت اور طریقہ کار اس کے پیچھے چھپے ہوئے اصل ارادے کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ چوں کہ کسی بھی غیر مجاز تعمیر کے انہدام کا ایک قانونی طریقہ کار ہے جس کو روبہ عمل لائے بغیر کی جانے والی کارروائی غیر قانونی اور غیر دستوری قرار پائے گی۔ چنانچہ ہریانہ کے ضلع نوح میں ہونے والی انہدامی کارروائی کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے پنچاب و ہریانہ کی ہائی کورٹ نے پوچھا تھا کیا یہ کارروائی "نسلی صفائی کی کوشش” تو نہیں ہے؟ عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ "یہ سوال اس لیے بھی پیدا ہوا کہ کہیں نظم و قانون کے مسئلے کے نام پر ایک ہی فرقے کے لوگوں کی عمارتیں گرائی جارہی ہیں اور ریاست کی جانب سے نسلی صفائی کا کام انجام دیا جا رہا ہے؟” ہائی کورٹ نے اس تبصرے میں جس شبہ کا اظہار کیا ہے اس کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے جب ہم اس کارروائی کا وقت، اس کا محل وقوع اور ان انہدامی کارروائیوں کے طریقہ کار کو دیکھتے ہیں۔ یہ تمام کارروائیاں ایک خاص وقت پر اور ایک خاص فرقے یعنی مسلمانوں کی بستیوں ہی میں ہی انجام دی گئی، اور یہ کہہ کہ انجام دی گئیں کہ یہی ان کا علاج ہے۔
چنانچہ ہلدوانی میں ہونے والی مذکورہ بالا انہدامی کارروائی بھی محض کسی غیر مجاز تعمیر کو ہٹانے کی کارروائی نہیں تھی بلکہ یہ ریاست اور اس کے ذریعے ملک کے ایک بڑے حصے میں مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان منافرت پیدا کرنے اور فرقہ ورانہ تقسیم کو بڑھانے کی ایک کوشش تھی جس کے ذریعے اقتدار پر موجود طبقہ اپنے لیے ماحول کو سازگار بنائے رکھنا چاہتا ہے۔
یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ اس موقع پر جماعت اسلامی ہند اور جمعیت علماء ہند دونوں کے مشترکہ وفد نے متاثرہ مقام کا بروقت دورہ کیا اور حالات کو جاننے کی کوشش کی۔ ملک میں پیدا ہونے والی یہ صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ملک و ملت کے تمام لوگ متحد ہوں اور فاشسٹ طاقتیں ملک میں فرقہ ورانہ تقسیم کی جو کوششیں کررہی ہیں ان کا پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔
گذشتہ اسٹوری