اداریہ

بڑھتے مذہبی جنون میں مسلمانوں کے کرنے کا کام

جنوری 2024 کے دوران ہمارے ملک کے طول و عرض بالخصوص شمال کی مختلف ریاستوں میں مرکزی و ریاستی حکومتوں کی جانب سے سرکاری سطح پر بے شمار مذہبی سرگرمیوں کا ایک طوفان برپا رہا۔ اسی ماہ کی بائیس تاریخ کو وزیر اعظم مودی نے ایودھیا میں بابری مسجد کو مسمار کرکے اسی مقام پر بنائے گئے مندر کا افتتاح کیا۔ بی جے پی نے رام مندر کے افتتاح کی اس تقریب کو 2024 کے انتخابات کے لیے ایک اہم وسیلے کے طور پر استعمال کرنے کی بھرپور تیاری کی ہے۔ حالاں کہ یہ مندر ایک مسجد کو ناجائز طور پر مسمار کرکے اسی مقام پر بنائی گیا ہے، جس کا اعتراف خودسپریم کورٹ نے کیا ہے اور یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ مسمار شدہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود بی جے پی اور اس سے منسلک مختلف تنظیمیں اسے کبھی پان سو سال کی غلامی سے آزادی کے طور پر پیش کر رہی ہیں تو کبھی اسے ملک میں رام راج کے آغاز کی علامت بناکر لوگوں کو ایک عجیب قسم کے مذہبی جنون میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ ایک سیکولر ملک میں اس مذہبی تقریب کو مکمل سرکاری سطح پر منانے کے جواز پر اب سوال کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ ہر سیاسی جماعت اس مذہبی جنون کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہے۔ اروند کیجریوال، نوین پٹنائک، کے کویتا جیسے کئی سیاست داں وہی زبان بولنے لگے ہوئے ہیں۔ وہ یا تو خوف کی نفسیات کا شکار ہوگئے ہیں یا اس کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں کہیں بازی ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ ملک کی آزادی کے بعد سے ہندوستانی سیاست میں مذہب کا اس طرح استعمال بلکہ استحصال اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کا یہ رویہ کس حد قابل قبول ہے یا کس حد تک غلط ہے اس پر سوال کرنے والا شاید کوئی باقی نہیں رہا۔ کیوں کہ جمہوریت کا چوتھا ستون کہلانے والے ادارے، میڈیا نے تو اس معاملے میں ساری حدیں پار کردی ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے میڈیا ادارے اب جمہوریت کے پاسبان کی حیثیت سے نہیں بلکہ آر ایس ایس یا بی جے پی کے ترجمان کی حیثیت سے ہی کام میں مصروف ہیں۔
یقیناً ہمارا ملک ایک مذہبی ملک ہے۔ یہاں بے شمار مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں۔ بے شمار ذاتیں ہیں، تہذیب و ثقافت اور زبانوں کا بے انتہا تنوع ہے۔آزادی کی جدوجہد میں بھی تمام لوگوں نے حصہ لیا۔ اسی لیے آزادی کے بعد شاید ملک کا دستور بنانے والوں نے ملک کے سیاسی و سرکاری معاملات سے مذہب کو الگ رکھنے کی کوشش کی تھی تاکہ یہاں کسی ایک مذہب کا غلبہ نہ ہوجائے اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ان کے غلام بن کر نہ رہ جائیں۔
سیاست اور انتخابات میں کامیابی کے لیے مذہب کا استعمال اور سرکاری سطح پر کسی خاص مذہب کی تقاریب کو منانے کی اس روایت پر ملک کے مختلف سنجیدہ شہری تشویش کا شکار ہیں اور اس کو ایک خاص مذہب یا تہذیب و ثقافت کی بالادستی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تمل ناڈو کے ایم پی راجہ نے ہندو قوم پرستی کے اس جنون کی سخت الفاظ میں مخالفت کی اور کہا کہ جس مذہب نے ہمیں ذات پات کی بنیاد پر الگ الگ کرکے رکھا ہوا ہے آج ہمیں اسی ہندو مذہب کی بنیاد پر ایک ہونے کو کہا جا رہا ہے؟ ایک سینئر صحافی اور تجزیہ نگار نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ "اس ملک کے ایک شہری کی حیثیت سے میں اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ ہم ایک جمہوری ملک میں اور ایسے متحمل مزاج لوگوں کے ساتھ رہ رہے ہیں جو دوسروں کے ساتھ عزت، احترام اور محبت کے ساتھ رہتے ہیں لیکن افسوس کہ میں غلط تھا، کیوں کہ ہم نے اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ ظلم و جبر کیا اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو تباہ کرکے اس کے کھنڈروں پر اپنی تقاریب منانے میں مصروف ہیں”۔ انصاف پسندوں کی یہ آوازیں مذہبی جنون کی اس فضا میں یقیناً بہت کمزور محسوس رہی ہیں لیکن لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جھوٹ، فریب اور ظلم و جبر کی بنیاد پر حاصل ہونے والی یہ کامیابی حقیقی کامیابی نہیں ہوتی اور بہت جلد اس کی حقیقت دنیا کے سامنے واشگاف ہو کر آجاتی ہے۔
اس تقریب سے مسلمانوں کو مایوسی کا شکار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس تقریب سےانہیں اس بات کا موقع حاصل ہوا کہ وہ ملک کے لوگوں کے سامنے انفرادی و اجتماعی سطح پر خالق و مخلوق کے تعلق کے تصور اور توحید و شرک کی حقیقت کے متعلق مباحث چھیڑیں اور انہیں بتائیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس میں تھوڑی سی بھی معقولیت نہیں پائی جاتی۔ اس کے بالمقابل اسلامی نظام کی معقولیت اور مسائل کے حل کرنے کی اس کی صلاحیت کو دلائل سے سامنے لانا چاہیے۔ اس موقع پر یہی مسلمانوں کا سب سے مناسب رد عمل ہوگا۔