اداریہ

!یوم جمہوریہ ۔ لمحہ احتساب

اقوام عالم کے درمیان بھارت کا تعارف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر مشہور ہے۔ بھارت، برطانوی سامراج سے آزادی ملنے کے ڈھائی برس بعد 26؍ جنوری 1950 کو اپنے دستور کے نفاذ کے ساتھ ایک مقتدر جمہوری ملک بنا اور اب اسے ایک عوامی جمہوریہ بنے ہوئے 74 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ ان 74 برسوں میں ملک نے مختلف میدانوں میں جہاں قابل لحاظ ترقی کی ہے وہیں وہ مختلف النوع سماجی و معاشی مسائل کا بھی شکار رہا ہے۔ ملک کی زمام کار سوشلسٹ رجحان کے حامل رہنماوں سے ہوتی ہوئی آج ہندوتوا کے فسطائی نظریات رکھنے والوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔ اس سفر کے دوران گوناگوں نشیب وفراز سے گزر کر ملک آج جس مقام پر کھڑا ہے وہ بھارت کی بیشتر آبادی کی امنگوں کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی آج کا بھارت دستور ہند کے معماروں کے خوابوں کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
یوم جمہوریہ محض قومی جشن منانے کا ایک موقع نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے حکم رانوں اور شہریوں کے لیے لمحہ احتساب ہے۔ ملک کی جمہوری تاریخ کے اس اہم دن کے موقع پر اس بات کا محاسبہ ضروری ہے کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور آج کہاں کھڑے ہیں۔ بانیان دستور نے یہ خواب دیکھا تھا کہ ان کا ملک ایک عوامی فلاحی ریاست بنے، یہاں کے عوام مل جل کر پوری ہم آہنگی و محبت کے ساتھ رہیں، اور بیرونی و اندرونی حکم رانوں کے ظلم و جبر کا شکار لوگوں کو وہ سماجی و معاشی آزادی، مساوات اور خوشحالی نصیب ہو جس کی تمنا جدوجہد آزادی کے دوران کی گئی تھی۔ دستور سازوں نے بھارت کو ’کثرت میں وحدت ‘ والا ملک قرار دیا اور آئین کی بنیاد جمہوریت اور قانون کی حکم رانی پر رکھی۔ دستور مرتب کرنے والوں کی خواہش تھی کہ یہاں کے عوام کو ایک آزادانہ جمہوری ماحول میسر ہو، جس میں اظہار خیال اور اختلاف رائے کا حق ہر شہری کو حاصل ہو اور روا داری کی بنیاد پر ہندوستانی سماج کو استوار کیا جائے۔ چناں چہ سماج میں انصاف، مساوات اور اخوت کی فضا کو پروان چڑھانے کو آئین میں اولین ترجیح دی گئی ہے۔ آئین کے دیباچہ میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ ہر فرد کو سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف فراہم کیا جائے گا۔ مذہب، ذات، زبان، علاقہ یا جنس کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جا ئے گا، سب کے ساتھ مساویانہ سلوک روا رکھا جائے گا اور سبھی کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔ اس بات کی بھی ضمانت دی گئی کہ ہر فرد کو آزادیِ فکر و عقیدہ حاصل ہوگی۔ نیز، اظہار خیال اور عبادات کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ معمارانِ دستور نے بھارت کی مخصوص روایات کو سامنے رکھتے ہوئے دستور مدوّن کیا تھا تاکہ وہ بھارت جیسے کثیر مذہبی، کثیر تہذیبی اور کثیر لسانی خصوصیات رکھنے والے ملک کے تمام شہریوں کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ لیکن آئین کی یہ باتیں آج کے ماحول میں بالکل بے روح نظر آتی ہیں۔ پچھلے زائد از سات دہوں کے دوران دستور کے ان اصولوں کو بری طرح پائمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کی آبادی کا ایک کثیر حصہ بالخصوص اقلیتیں اضطرابی کیفیت سے دوچار ہیں، جنہیں حکومتوں کے رویّوں اور طبقات کے درمیان خطِ امتیاز کھینچنے والی پالیسیوں کے سبب اپنے آئینی حقوق کے تعلق سے خدشات لاحق ہیں۔
بد قسمتی سے جمہوریہ ہند کی 74ویں سالگرہ پر یہ کہنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ مذہبی منافرت، آپسی دشمنی اور شر انگیزی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان چیزوں کا نقصان محض کسی ایک مذہبی گروہ کو ہی نہیں پہنچتا بلکہ پورے ملک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ مذہبی منافرت اور عدم مساوات اور نا انصافی کے ساتھ ملک کو نہ تو معاشی لحاظ سے طاقتور بنایا جاسکتا ہے اور نہ اسے ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے باقی رکھا جا سکتا ہے۔ اگر ملک کا برسر اقتدار طبقہ آئین ہند کو اس کی مکمل روح کے ساتھ نافذ کرے تو آج ملک جس بحرانی دور سے گزر رہا ہے اس سے نکلنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
ہمارے ملک میں نجی دولت میں اضافے اور دولت مندوں کے درمیان دولت کے ارتکاز کی شرح بھی بہت ہی تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ ملک کی نچلی سطح کی نصف آبادی کے پاس ملک کی دولت کا محض 6 فیصد حصہ ہے جب کہ ایک فیصد طبقہ ملک کی دولت کے 33 فیصد حصے کا اور 10 فیصد لوگ ملکی دولت کے 66 فیصد حصے کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ ایک اور تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک جانب نجی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب عوامی و سرکاری دولت میں مسلسل کمی نوٹ کی جا رہی ہے۔ ملک میں پائی جانے والی یہ معاشی عدم مساوات کی کیفیت ہمہ جہتی ہے۔ یہ عدم مساوات صرف دولت اور آمدنی ہی میں نہیں ہے بلکہ اس کا اثر ان کے رہن سہن اور سماجی برتاو میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ نچلے طبقے کی سیاسی بے وزنی نے اس صورتحال کو اور بھی تشویشناک بنا دیا ہے، وہ نہ تو اپنی بات کہیں پیش کر سکتے ہیں اور نہ وہ پالیسی سازی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ہمارا ملک اس وقت چند ایک دولت مند ترین افراد اور کروڑوں غریب عوام کا ملک بن چکا
ہے۔ حکم راں، عوام کے حقیقی مسائل کے حل پر توجہ دینے کے بجائے اکثریت کے مذہبی جذبات کی تسکین کا سامان کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں جیسا کہ 22 ؍ جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کو ایک قومی ایونٹ بنا دینے کی کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ ملک کی سماجی قیادت اور باشعور عوام کو یوم جمہوریہ کے اس جشن کے موقع پر احتساب کرنا ہو گا کہ کیا اس طرح کی طرز حکم رانی سے ایک پرامن، آسودہ و خوشحال عوامی زندگی کا ان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟