اداریہ

مقدس شخصیات اور مقدس کتابوں کی توہین

گزشتہ دنوں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے عوامی مقام پر کھلے عام رام چرت مانس کی توہین کرنے والے دیویندر پرتاب یادو کی جانب سے این ایس اے کے تحت کارروائی کو روکنے کے سلسلے میں داخل کردہ ہیبس کارپس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے این ایس اے کی کارروائی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے رام چرت مانس کی توہین کی تھی۔ دراصل گزشتہ سال سوامی پرساد موریہ نے رام چرت مانس کے متعلق کچھ تضحیک آمیز تبصرے کیے تھے۔ اس کے بعد 29 جنوری 2023 کو بعض افراد نے سوامی پرساد موریہ کے ان ریمارکس کی حمایت میں عوامی مقامات پر رام چرت مانس کی مبینہ توہین کی، اس کا مذاق اڑایا، اس کی کاپیاں پھاڑ دیں، مذکورہ سوامی کی حمایت میں نعرے لگائے اور رام چرت مانس کے عقیدت مندوں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔ اس پوری کارروائی سے رام کے پیروکاروں میں غم و غصہ پھیل گیا تھا۔ چنانچہ یو پی پولیس نے ملزمین کو این ایس اے کے تحت گرفتار کرکے ان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرکے کارروائی کا آغاز کر دیا۔ ان لوگوں کی مذکورہ کارروائی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوگئی جس کے نتیجے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ان ملزمین میں سے ایک نے ہائی کورٹ میں این ایس اے کے تحت کارروائی کو روکنے کے لیے ہیبس کارپس درخواست داخل کی لیکن ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے اس درخواست کو مسترد کر کے این ایس اے کی کارروائی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اگر مجرموں کو ضمانت پر رہا کر دیا جائے تو وہ دوبارہ اسی طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہوں گے جو امن و امان کے لیے خطرہ ہوگا۔فیصلے میں عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایسے طنزیہ انداز میں کسی مقدس شخصیت کی توہین کرنے پر عوام کا غصے میں آنا فطری ہے۔
اگرچہ یہ معاملہ اور تنازعہ ہمارے ملک کے دو ایسے طبقات کے درمیان ہے جو آر ایس ایس کے نظریے کے مطابق ایک ہی ہیں۔ اس لیے اس اعتبار سے تو یہ ہندووں کے آپس کا جھگڑا ہے لیکن چونکہ اس میں ہندوؤں کی ایک ایسی مقدس ہستی کا نام شامل ہے جو موجودہ حکم رانوں کے نزدیک انتخابات کے لیے ترپ کا پتہ ہے، اس لیے اس کی اہمیت ان کے نزدیک بہت زیادہ ہے۔ لیکن عدالت نے جس چیز کو بنیاد بنا کر ضمانت کی درخواست مسترد کر دی، وہ بجائے خود نہایت اہم ہے۔ اس سے قبل ملک کے مختلف علاقوں سے یہ مطالبہ بھی ہوتا رہا ہے کہ ملک میں کسی بھی مذہب کی مقدس شخصیات اور مقدس کتب کی توہین کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔کیوں کہ یہ عمل بے شمار لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا اور ملک میں امن و امان کی صورت حال کو بگاڑنے کا سبب بنتا ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے اس معاملے پر فیصلہ دیتے ہوئے جو تبصرہ درج کیا ہے کہ ۔۔۔۔ایسی مقدس ہستیوں پر طنزیہ ریمارکس سے ان کے پیروؤں کا غصہ میں آنا فطری ہے۔۔۔ تو اس اصول کا اطلاق ملک کے تمام ہی مذہبی گروہوں پر ہوگا اور کسی بھی مذہب کی مقدس ہستی پر طنز کرنا اور ان کی توہین کرنا غلط ہوگا۔ لیکن ہمارے ملک میں پچھلے کچھ عرصے سے آئے دن مختلف مذاہب کی مقدس ہستیوں اور ان کے مقدس صحیفوں کی توہین اور بے حرمتی کے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں۔ نہ حکومت اس پر کوئی کارروائی کرتی ہے اور نہ عدالت اس کی از خود کوئی نوٹس لیتی ہے۔ اور اب تو صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی مقدس ہستیوں پر یا قرآن پر توہین آمیز تبصرے کرنا عوام میں مشہور ہونے کا ایک سستا اور آسان فارمولا بن گیا ہے۔ چنانچہ گزشتہ دنوں ایسے ہی کچھ واقعات پر بی جے پی نے بین الاقوامی دباو کے تحت، بالخصوص عرب ممالک کی ناراضی کے پیش نظر اپنے کارندوں کو دکھاوے کے لیے کچھ عرصے تک پارٹی سے نکالنے کا ڈراما رچا لیکن بعد میں نہ صرف پارٹی میں قبول کرلیا بلکہ ترقی دے کر ایوان اسمبلی تک پہنچا دیا۔ یہ صورت حال نہ صرف تکلیف دہ ہے بلکہ ملک کے سماجی تانے بانے کو تباہ کر دینے والی ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جس سماج میں مختلف مذاہب کے ماننے والے افراد رہتے بستے ہوں وہاں نظریاتی اختلافات کا پایا جانا فطری امر ہے۔ لیکن ایک مہذب اور باشعور معاشرہ ان فکری و نظریاتی اختلافات کو علمی انداز سے آپسی گفت و شنید اور تبادلہ خیال کے ذریعے حل کرتا ہے۔ اس عمل میں یقیناً مختلف نظریات پر سنجیدہ علمی تنقید بھی ہوتی ہے اور باشعور سماج کی خاصیت یہ ہوتی ہے وہاں لوگ اس تنقید کو سنتے بھی ہیں اور اسی سنجیدہ اسلوب میں اس کا جواب بھی دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سمجھنے اور جاننے کا فطری اور علمی طریقہ یہی ہے۔ لیکن جہاں مذہب، پیروی کے لیے نہیں بلکہ اپنے حقیر سیاسی مفادات کے لیے استعمال ہوتا ہو وہاں گفتگو اور تبادلہ خیال کے بجائے جان بوجھ کر اسی طرح کی صورت حال پیدا کی جاتی ہے۔ لہٰذا عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے سماج کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ آیا اختلافی امور پر سنجیدہ گفت و شنید اور تبادلہ خیال کا طریقہ اختیار کرتے ہیں یا مفاد پرست سیاسی ٹولوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر سماج کو انتشار کا شکار بنادینا چاہتے ہیں؟