اداریہ

آزادئ عقیدہ پر قدغن، انسانیت کی توہین

گزشتہ ہفتے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش کے عالم دین مفتی قاضی جہانگیر عالم قاسمی کو ضمانت دے دی ہے۔ انہیں جون 2021 میں اترپردیش پولیس کے مخالف دہشت گردی اسکواڈ نے گرفتار کیا تھا نتیجہ میں وہ پچھلے ساڑھے تین برس سے جیل میں بند تھے۔ اترپردیش پولیس نے ان پر ریاست میں عوامی تبدیلی مذہب کی سازش اور ریاست بھر میں ایک ہزار سے زائد افراد کی تبدیلی مذہب میں مدد کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔
جسٹس راجن رائے اور جسٹس اجے کمار سریواستو پر مشتمل بنچ نے یہ کہتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کی کہ اسی مقدمے میں اس سے قبل 12 افراد کی ضمانت منظور کی جاچکی ہے جن میں سے 2 افراد کی ضمانت سپریم کورٹ نے دی ہے۔اس سے قبل لکھنو میں این آئی اے کی عدالت نے ان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی۔ خود الٰہ آباد ہائی کورٹ میں بھی ان کی درخواست ضمانت تکنیکی بنیاد پر مسترد کی جاچکی تھی لیکن اس بار ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ اور الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سابقہ فیصلوں کی نظیر کو سامنے رکھتے ہوئے مفتی قاضی جہانگیر عالم قاسمی کی ضمانت منظور کردی۔ این آئی اے کی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ کہا تھا کہ :
"۔۔۔۔ہندوستان میں ہر فرد اپنی مرضی سے کسی بھی مذہب کی اتباع کرنے کے لیے آزاد ہے، لیکن کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے فرد کے مذہب کی تحقیر کا غیر قانونی کام کرے یا کسی مذہب کے ماننے والوں کے دلوں میں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے تئیں نفرت اور حسد پیدا کرے۔ یہ عمل بھارت کے آئین کے بنیادی مقصد کے خلاف ہے اور اس طرح کا کوئی بھی عمل ممنوع ہے”۔
یقیناً الٰہ آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ امید افزا ہے لیکن ہمارے ملک بالخصوص ریاست اترپردیش میں حکومت وقت کی جانب سے جس طرح کا تضاد سے بھرا ہوا ماحول تیار کیا جا رہا ہے ،این آئی اے کی عدالت کا یہ تبصرہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔
انسان اس کائنات کی سب سے اعلیٰ مخلوق ہے۔ پیدا کرنے والے نے اس کو عقل و شعور اور ضمیر جیسی خصوصیات سے نوازا ہے۔ اسے سوچنے، غوروفکر کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے اور یہی آزادی اس کو اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز کرتی ہے۔ دنیا کے اکثر قوانین میں انسان کی اس آزادی کو تسلیم بھی کیا گیا ہے اور اس کو بہت زیادہ اہمیت بھی دی گئی ہے۔ چنانچہ ہمارے ملک کے آئین میں بھی آزادی کے اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ہمارا ملک ایک مذہبی ملک ہے۔ یہاں انسانوں کی زندگی میں مذہب نہایت ہی اہم عنصر ہے۔ لوگ آسانی کے ساتھ مذہب کو تبدیل نہیں کرتے۔ اور اگر کوئی فرد اپنے سابقہ مذہب کو ترک کرکے کسی دوسرے مذہب کو قبول کرتا ہے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس نے پورے غوروفکر کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کو محض لالچ یا کسی اور عامل کے تحت انجام دیا ہوا کام قرار دینا فرد کی توہین اور اسے عقل و شعور سے عاری سمجھنا ہے۔
اگر کوئی فرد تبدیلی مذہب کا یہ فیصلہ بھارت جیسے ملک میں کر رہا ہے تو اس پر اس طرح کا الزام لگانا عقل کے بھی خلاف ہے۔ یہاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کس قدر پروپگنڈا جاری ہے، خود مسلمانوں پر کس طرح سے عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، مسلمانوں کے خلاف مختلف سطحوں پر پایا جانے والا تعصب، فرقہ ورانہ فسادات، ہجومی تشدد میں ہلاکتیں وغیرہ جیسی صورت حال میں آخر کوئی فرد کیوں مسلمان ہو کر ان کا شکار بننا چاہے گا؟ آخر اسے یہاں کیا مادی فائدہ حاصل ہوگا؟ اس مخالفانہ ماحول میں بھی جو افراد اسلام کے دامن رحمت میں پناہ لے رہے ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر، بغیر کسی لالچ اور جبر کے اپنی مرضی سے داخل ہو رہے ہیں۔ لیکن پروپگنڈا یہ کیا جاتا ہے کہ لوگوں کو زبردستی اور لالچ کے ذریعے اپنے مذہب میں داخل کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب اس کی برعکس صورت حال یہ ہے کہ این آئی اے نے جن امور کو غیر قانونی اور خلاف آئین کہہ کر ضمانت دینے سے انکار کیا تھا وہ سارے غیر قانونی کام ملک کے مختلف مقامات پر دھڑلے سے ہو رہے ہیں اور قانون و انتظامیہ اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ کس طرح ایک مخصوص مذہب اور اس کے ماننے والوں کی تحقیر کی جاتی ہے، کیسے ایک مذہب کے ماننے والوں کے درمیان دوسرے مذہب اور اس کے ماننے والوں کے خلاف کھلے عام نفرت، حسد اور اشتعال پیدا کیا جاتا ہے۔ کہیں باقاعدہ دھرم سنسد منعقد کرکے نہ صرف گالیاں دی جاتی ہیں بلکہ ان کی نسل کشی کے ارادے ظاہر کیے جاتے ہیں، تو کہیں گھر واپسی کے نام پر اجتماعی تبدیلی مذہب کا کام انجام دیا جاتا ہے لیکن یہ سب کام نہ تو حکومت کو غلط، غیر قانونی اور خلاف آئین محسوس ہوتے ہیں اور نہ ہی تفتیشی و جانچ ایجنسیاں ان کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہیں۔ ملک کے شہریوں کو اور عوام الناس کو یہ سوچنا چاہیے کہ کیا اس صورت حال کو یوں ہی رہنے دیا جائے کہ یہاں انسانوں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا موقع ہی باقی نہ رہے اور لوگ ایک دوسرے کے مذہب کے متعلق جاننے، سمجھنے اور اپنی پسند کے مذہب کوقبول کرنے کی آزادی سے محروم ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ نہ صرف ملک کی بلکہ یہاں رہنے والے انسانوں کی بھی توہین ہے۔