اداریہ

ہمالیائی چیلنج: ماحولیات اور ترقی میں توازن

بھارت کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقے میں بسا ہوا چھوٹا سا شہر جوشی مٹھ ان دنوں ٹی وی چینلوں، اخبارات اور سوشل پر چھایا ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جس ہلدوانی شہر کی ایک بستی کے انہدام کی کارروائی پر سپریم کورٹ نے روک لگا کر وہاں کے مکینوں کو عارضی راحت دی ہے وہ بھی ریاست اتراکھنڈ ہی میں واقع ہے۔ اگر عدالت عظمی کی جانب سے بر وقت یہ کارروائی نہ ہوتی تو چالیس ہزار سے زائد لوگ راتوں رات اپنے گھروں سے محروم ہو جاتے جو وہاں کئی دہوں سے رہائش پذیر تھے۔ ان لوگوں کو سپریم کورٹ نے عارضی راحت تو دے دی ہے لیکن اس بستی کا مستقل ابھی بھی عدالت میں ہونے والی سنوائی اور حتمی فیصلے پر منحصر ہے۔ اس طرح ان لوگوں کی پریشانی ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی۔
اب اسی ریاست کے ایک اور مشہور مقام جوشی مٹھ کے تقریباً پچیس ہزار مکین اپنے گھروں کے متعلق شدید خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں ان کے مکانات زمین بوس نہ ہو جائیں۔ بھارت کے مشہور مذہبی مقامات بدری ناتھ اور ہیم کنڈ صاحب کے علاوہ اسکائینگ کے مشہور مرکز اولی کا گیٹ وے کہلانے والا یہ قصبہ آج شدید بحران کی زد میں ہے۔ یہاں کے کئی گھروں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں جو بتدریج گہری ہوتی جارہی ہیں، اور یہ پورا قصبہ کسی بھی وقت ایک تباہ کن حادثے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ حکومت نے اس شہر کو زمین کھسکنے اور دھنسنے والا خطہ قرار دے دیا ہے۔ اسی لیے یہاں رہائش پذیر لوگوں کو حکومت کے قائم کردہ راحتی مراکز میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ جوشی مٹھ کا یہ شہر بڑی تیزی سے زمین میں دھنستا جا رہا ہے۔گزشتہ دنوں ملک کے خلائی تحقیقی ادارے اسرو کی جانب سے جو تصاویر جاری کی گئی تھیں ان کے مطابق صرف بارہ دنوں کے دوران یہ علاقہ 5.4 سنٹی میٹر زمین کے اندر چلا گیا ہے۔ دراصل جوشی مٹھ کی پوری آبادی پہاڑی ڈھلان کے ایک ایسے قطعے پر بسی ہوئی ہے جو قدیم زمانے میں زمین کھسکنے کے سبب وجود میں آیا، جہاں کی زمین چٹانی نہیں بلکہ ریت اور کنکروں پر مشتمل ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ زمین زیادہ بڑی عمارتوں کا بوجھ نہیں سہار سکتی۔ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر منصوبہ بند اور اندھا دھند تعمیرات، زیادہ آبادی، پانی کے فطری بہاو میں رکاوٹ اور بجلی تیار کرنے کی سرگرمیوں کے سبب ہی یہاں کی زمین اندر دھنستی جا رہی ہے۔ آج سے پچاس برس قبل ایم سی مشرا کمیٹی کی رپورٹ میں پہلی مرتبہ اس کے متعلق خبردار کیا گیا تھا اور علاقہ میں غیر محتاط ترقیاتی کام نہ کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود حکومت اور عوام دونوں نے بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ سیاحتی و مذہبی اعتبار سے اہم مقام ہونے کی وجہ سے سرمایہ داروں اور حکومت دونوں ہی نے اس مقام کو دولت بٹورنے کا ذریعہ بنایا۔ سیاحوں کے لیے بڑے بڑے ہوٹل اور عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ حکومت نے ترقی کے نام پر بڑی بڑی شاہراہوں اور پن بجلی کے وسیع منصوبوں کو نافذ کرنے کا کام کیا۔ پرکشش آمدنیوں کی وجہ سے یہاں آبادی میں مسلسل اضافہ ہونے لگا۔ لوگوں نے زمینوں پر ناجائز قبضے کیے اور لاپروائی کے ساتھ مکانات بننے لگے۔ اس کے لیے پہاڑ کاٹے جانے لگے، سرنگیں بنائی جانے لگیں اور ندی نالوں کے قدرتی راستے روک دیے گئے۔ اس طرح مادہ پرستی کی دوڑ، حکومت، سرمایہ داروں اور عوام کی لاپروائی نے علاقے کے فطری ماحول اور قدرتی توازن کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ جس کا نتیجہ آج جوشی مٹھ کے عوام بھگت رہے ہیں۔ اس سے قبل کیدارناتھ اور وادی کشمیر میں قدرتی آفات نے جس طرح کی تباہی مچائی تھی ان کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ یہ قدرتی ماحول میں انسانی مداخلت اور فطری توازن کو خراب کرنے کا نتیجہ ہیں۔ اس کے علاوہ ترقی کے نام پر ملک کے بڑے بڑے شہر جس بے ہنگم انداز میں پھیل رہے ہیں، وہاں پیدا ہونے والی رہائشی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے جس طرح ندیوں، نالوں اور جھیلوں کی زمین پر ناجائز قبضے کیے جا رہے ہیں اس کے نتیجے میں ہر سال نشیبی آبادیاں سیلاب کی زد میں آجاتی ہیں۔
حصول دولت کی اس ہوڑ نے پوری دنیا میں قدرتی وسائل کو اسی طرح تباہ و برباد کیا ہے، ترقی کے نام پر کرہ ارض کے پورے ماحولیاتی توازن کو خراب کیا ہے۔ حکومتیں، سرمایہ دار اور عوام سب ہی اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ حصول دولت کی یہ دوڑ پورے کرہ ارض کو انسانی زندگی کے لیے مشکل بناتی جا رہی ہے۔
خدا نے یہ زمین حیات انسانی کے لیے موزوں بنائی تھی لیکن انسان اپنے لالچ، پرتعیش زندگی کی طلب اور دولت پرستی کے سبب اسے غیر موزوں بناتا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ انسان قدرتی وسائل کو عیش و عشرت اور تعیش پسندی کے بجائے حقیقی ضرورتوں کے لیے ہی استعمال کرے۔ ترقی کو حصول دولت کے بجائے انسانی فلاح سے مربوط کرے۔ یہ ترقی دولت مرکوز نہیں بلکہ انسان مرکوز ہونی چاہیے۔ ان امور میں اسلام نے بڑی واضح تعلیمات دی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ ان تعلیمات سے واقف بھی ہوں اور ان پر عمل بھی کریں۔ اہل اسلام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اہل وطن کو اسلام کی ان تعلیمات سے روشناس کروائیں اور بتائیں کہ اسلام ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے۔