سال 2023ء کی اچھی اور تلخ باتوں کو یاد کیا جائے تو تلخیوں کا پلڑا ہی بھاری نظر آئے گا۔ چندرائن مشن کی کامیابی اور نئی دلّی میں G-20اجلاس کی میزبانی نے بلا شبہ عالمی سطح پر بھارت کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح معاشی محاذ پر بھی کچھ مثبت اشارے ضرور ملے ہیں جیسا کہ بھارتی معیشت کووڈ وبا کے باعث درج کی گئی گراوٹ اور روس۔یوکرین جنگ کے منفی اثرات سے ابھرتی ہوئی نظرآئی ہے تاہم بے روزگاری اور اور بڑھتی مہنگائی سے عوام کو کوئی خاص راحت نہیں مل سکی۔ دوسری طرف تلخ واقعات کی ایک طویل فہرست ہے جو ملک کے باشعور وفکرمند شہریوں کے اضطراب کوبڑھادینے کے لیے کافی ہے۔
یہاں کچھ نمایاں واقعات کا ذکر کیا جارہا ہے۔ارباب اہل حل وعقد کو ان واقعات سے ابھرنے والے سوالات پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
سال 2023 کی سرخیوں میں آنے والا پہلا بڑا معاملہ بجرنگ پونیا، ونیش پھوگٹ اور ساکشی ملک جیسے چوٹی کے پہلوانوں کا تھا، جو دلی کے جنتر منتر پربی جے پی رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف ایک احتجاج میں شامل ہوئےتھےجن پر کھلاڑیوں کی جنسی ہراسانی کے سنگین الزامات ہیں مگرحکومت نے اولمپکس میں بھارت کو مڈل دلاکر ملک کے لیے باعث فخر بننے والے ان کھلاڑیوں کے دردوکرب پر کوئی توجہ نہیں دی اور یہ معاملہ ہنوز حکومت کی سخت کارروائی کا منتظر ہے۔
ایک دوسرا واقعہ منی پور میں 4؍ مئی کو پیش آیا جس میں دو خواتین کو برہنہ کرکے پریڈ کروائی گئی۔ اس واقعے کی ایک ویڈیو 19 جولائی کو منظر عام پر آئی۔ جس کے بعد نہ صرف پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر پھیل گئی بلکہ اس واقعے کے عالمی سرخیوں میں جگہ بنالینے سے بین الاقوامی سطح پر بھی بھارت کی رسوائی ہوئی۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئےاس کا از خود نوٹس لیا اور مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے کہہ دیا ’’ اگر آپ کارروائی نہ کریں تو ہم کریں گے‘‘ ۔ عدالت عظمیٰ کی سہ رکنی بنچ نے کہا کہ ویڈیو دیکھ کر ہم بہت پریشان ہوگئے ہیں۔ یہ ویڈیو ہماری پوری مشنری کے ناکام ہونے کی کہانی بیان کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ منی پور میں ریاستی مشنری نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے۔ 3؍ مئی کو منی پورمیں کوکی اور میتی سماج کے درمیان بھڑکنے والا تشدد مہینوں جاری رہا جس نے 2002 کے گجرات قتل عام کی یاد تازہ کردی۔ گجرات میں مسلمان نشانہ بنے تھے اور منی پور میں عیسائی اقلیت کو نشانہ بنایا گیا۔ بڑے پیمانہ پر جان ومال کا نقصان ہوا ۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے۔ خبروں تک رسائی روکنے کے لیے انٹرنیٹ تک بند کردیا گیا تھا۔ دوسری طرف وزیراعظم نے کئی دن کی خاموشی کے بعد محض چند رسمی بول ادا کرتے ہوئے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اوروہ تاحال منی پورنہیں گئے۔ وزیراعظم نے جب پارلیمنٹ میں بیان دینے کے مطالبہ کو نظر انداز کردیا تو اپوزیشن کواعدادوشمار اپنے حق میں نہ رکھتے ہوئے بھی اس حساس مسئلہ پر حکومت کے سربراہ کی لب کشائی کے لیے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ منی پور میں بھڑکنے والی آگ اگرچہ بجھ گئی ہے لیکن بجھی ہوئی راکھ میں شعلہ بننے کی منتظر چنگاریاں اب بھی موجود ہیں۔ اس تشدد نے حکومت کی متعصب پالیسیوں، انسانی جان واملاک کا تحفظ کرنے کے معاملہ میں بے حسی و ناکامی، آئین و قانون کی پامالی اور اقلیت دشمن رویے جیسے کئی امور کو آشکار کیا ہے۔
اڑیسہ کے ضلع بالاسور کے قریب 2؍ جون کی شب صدی کا بدترین ٹرین حادثہ پیش آیا تھا جس میں 296 افراد ہلاک اور 800 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔ یہ حادثہ دو مسافر ٹرینوں اور ایک مال گاڑی کے درمیان تصادم کے نتیجے میں پیش آیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد ریلوے کے متعلقہ عہدیداروں کی سنگین مجرمانہ لاپرواہی اور ریل سفر کو محفوظ بنانے کے معاملہ میں مودی حکومت کی ناکامی پر کئی سوال اٹھے جوبدستور اپنی جگہ موجود ہیں لیکن وقت کے ساتھ شاید عوام کے ذہنوں سے محو ہوگئے ہیں۔
حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہزاروں راکٹ فائر کرکے آپریشن ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کا آغاز کیا جس کے بعد اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیوں نے 20ہزار سے زائد فلسطینیوں کی جان لے لی جن میں نصف سے زائد تعداد بچوں اورخواتین کی ہے۔اس جنگ کو روکنے کے لیے جب پہلی بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرار داد پیش کی گئی تو مودی حکومت نے فلسطینی کاز کی حمایت کے بھارت کے دیرینہ و روایتی موقف سے انحراف کرتے ہوئے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور اپنی غیر حاضری درج کروائی۔ حکومت کے اس صیہونیت نواز موقف پر اندرون وبیرون ملک سخت تنقیدیں ہوئیں اور اسے سفارتی پالیسی میں تبدیلی کے طور پر دیکھا گیا۔ لیکن دو ماہ بعد 12؍ دسمبر کو جب جنگ بندی کی دوسری قرارداد لائی گئی تو بھارت نے اس کی تائید میں ووٹ دیا اور فلسطین کے معاملہ میں روایتی موقف سے انحراف کی وجہ سے جو نقصان پہنچ چکا تھا اس کی کسی قدر تلافی کرنے کی کوشش کی۔ بھارت کے نظریہ سے فلسطینی کاز کی حمایت اس لیےبھی اہم ہے کہ ماضی میں وہ بھی بیرونی قبضے کے ستم کا شکار رہ چکا ہے لہذا وہ قابض طاقتوں کی حوصلہ افزائی کیسے کرسکتا ہے؟ انسانی پہلو کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کا ایک جذباتی پہلو بھی ہے کیونکہ انڈونیشیا کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی بھارت میں رہتی ہے اور مسئلہ فلسطین ان کے دل سے جڑا ہوا ہے۔ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ وہ اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کے جذبات کو کیسے مجروح کرسکتی ہے؟
سال 2023 نے جاتے جاتے ملک کی پارلیمنٹ پر دو دہے قبل ہوئے حملہ کی یاد تازہ کرادی کیونکہ پارلیمنٹ کی سیکوریٹی میں سنگین نقص کا واقعہ ایک مرتبہ پھر اس وقت سامنے آیا جب دو افراد لوک سبھا میں ارکان کی بنچوں تک پہنچ گئے تھے اور دو افراد پارلیمنٹ کے باہر دھواں خارج کرنے والے کنستر کے ساتھ پکڑے گئے ۔ادھر پارلیمنٹ کے اندر جاری کارروائی بھی پارلیمانی جمہوری روایات کے سراسر خلاف رہی کیونکہ اپوزیشن کے 146ارکان پارلیمنٹ کو دونوں ایوانوں سے معطل کردیا گیا اور اپوزیشن کو اپنی بات رکھنے کا موقع دیے بغیر ہی متنازع بلوں کومحض اکثریت کی بنیاد پر منظور کروالیا گیا۔ اس طرح پارلیمنٹ کو اپنے حلقہ انتخاب سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کی ترجمانی سے محروم کرتے ہوئے نصف درجن سے زائد بل جن میں تین نئے فوجداری بلز شامل ہیں جن میں’’ راج دروہ‘‘ کی جگہ دیش دروہ (ملک دشمنی) کا قانون بناکر پولیس اور انتظامیہ کوبے مہار اختیارات دے دیے گئے ہیں۔حکومت کے رویے کو دیکھتے ہوئے ان خدشات کو خارج نہیں کیا جاسکتا کہ اس طرح کے قوانین محض اقلیتوں اور سیاسی مخالفین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے لیے ہیں۔
گذشتہ اسٹوری
اگلی اسٹوری