ہمارے ملک کی نو تعمیر شدہ پارلیمنٹ کی عمارت میں سخت سیکیورٹی کے باجود رنگین دھویں کے اسپرے کے ساتھ کچھ نوجوانوں کے اچانک داخلے نے پارلیمنٹ کی سیکیورٹی پر کئی سوالیہ نشانات کھڑے کر دیے ہیں۔ ملک کے سب سے زیادہ محفوظ علاقے میں ان احتجاجی نوجوانوں کے اس طرح داخلے نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ لیکن میڈیا پر وائرل شدہ ان تصاویر اور پارلیمنٹ کے سیکیورٹی پروٹوکول میں پائے گئے جھول اور اس پر ہونے والی بحث کے درمیان اس پورے واقعے کی پشت پر کارفرما اصل موضوع پر کسی کی توجہ نہیں جا رہی ہے۔ یہ ملک کے تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی کہانی ہے جس کو بری طرح سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ موضوع ہے جس پر نہ تو پارلیمنٹ میں کوئی سنجیدہ بحث ہو رہی ہے نہ ہی ملکی میڈیا اس پر کوئی توجہ دے رہا ہے۔
پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کو توڑ کر اس طرح کا احتجاج کرنے والے نوجوان ملک کے اسی تعلیم یافتہ بے روزگار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں ایک 28 سالہ ساگر شرما ہے جو بارہویں کامیاب ہے اور لکھنو میں ای رکشہ چلاتا ہے۔ دوسرا نوجوان 34 سالہ منورنجن ہے جو میسور کا ایک آئی ٹی انجینئر ہے جو کئی برسوں سے اپنی تعلیم کے مطابق روزگار کی تلاش میں ہے۔ ان میں ہریانہ کی رہنے والی خاتون 37 سالہ نیلما ورما بھی ہے جس نے ایم اے، ایم فل اور بی ایڈ تک تعلیم حاصل کرکے سات برس قبل ہریانہ کے ٹیچر اہلیتی امتحان میں بھی کامیابی حاصل کرلی ہے، لیکن ابھی تک بے روزگا رہے۔ اس گروپ کا آخری نوجوان لاتور کا امول شنڈے ہے جو بارہویں کامیاب کرنے کے بعد آرمی یا پولیس کی ملازمت حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ ملک کی مختلف ریاستوں کے رہنے والے ان نوجوانوں نے آن لائن ملاقات کے ذریعے پارلیمنٹ میں داخل ہونے کا منصوبہ بنایا۔ ان نوجوانوں کی الگ الگ کہانیاں دراصل ہمیں اپنے ملک میں موجود بے روزگاری کی داستان سنا رہی ہیں، جو حالیہ دنوں میں اب تک کی سب سے اونچی شرح پر پہنچ گئی ہے۔ہمارے حکم راں ملک میں ایسی ملازمتوں اور روزگار کو پیدا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں جو ان نوجوانوں کی تعلیم اور ان کی مہارتوں کے مطابق ہو۔
سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (CMIE) کے پیش کردہ ڈیٹا کے حوالے سے بلوم برگ نے یہ رپورٹ دی ہے کہ اکٹوبر 2023 کے دوران ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 10.09 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ستمبر کے بعد سے اس میں تقریباً تین فیصد کا مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ بے روزگاری کی یہ شرح دیہی علاقوں میں اور بھی زیادہ ہے۔ حالاں کہ حکومت کی جانب سے جو اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہیں ان میں ملک میں بے روزگاری کی شرح کو کافی بتایا جا رہا ہے۔ لیکن اکثر ماہرینِ معاشیات حکومت کے پیش کردہ اعداد و شمار کے بالمقابل سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (CMIE) کے اعداد و شمار کو زیادہ درست اور قابل بھروسا تسلیم کرتے ہیں۔ مرکزی اور مختلف ریاستی حکومتوں نے نوجوانوں کے لیے بڑی تعداد میں ملازمتوں کے وعدوں کے ساتھ انتخابات لڑے تھے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اس امید پر انہیں ووٹ دیا تھا کہ موجودہ حکم رانوں کے اقتدار سنبھالتے ہی ان کے دن پھر جائیں گے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی یہ امید دم توڑتی گئی اور وہ مایوسی کا شکار ہوتے گئے۔ ملک کی صورت حال میں کسی تبدیلی سے نا امید ہو کر یہ تعلیم یافتہ نوجوان ایک سنہرے مستقبل کا خواب آنکھوں میں لیے غیر قانونی طور پر امریکہ اور دیگر ممالک کا رخ کرنے لگے۔ رپورٹس کے مطابق امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کی تعداد کے اعتبار سے ہمارا ملک، جو وشوگرو ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، پوری دنیا کے ممالک کے سر فہرست ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اس وقت صرف امریکہ میں بھارت کے ساڑھے سات لاکھ نوجوان غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت سے موجود ہیں۔
ملک میں بے روزگاری کی یہ شرح مسلسل بڑھتی جا رہی ہے، لیکن ہمارے حکم رانوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی ساری توجہ محض انتخابات جیتنے پر مرکوز ہے۔ انتخابات کے ذریعے مختلف جماعتوں کو اس لیے اقتدار سونپا جاتا ہے کہ وہ ملک کے ان توجہ طلب مسائل کو حل کریں، یہی اس پورے انتخابی عمل کا بنیادی مقصد ہے۔ لیکن اگر سیاسی جماعتیں اس کو چھوڑ کر محض انتخابات میں کامیابی کو ہی اصل مقصد بنالیں تو پھر ملک کے عوام ہر طرف سے بے بس اور مجبور ہو کر اسی طرح کی حرکتوں پر اتر آتے ہیں۔
چنانچہ پارلیمنٹ میں ان نوجوانوں کے اس طرح حملے کو سیکیورٹی پروٹوکول کی کمزوری اور اس کے توڑنے کے جرم کے طور پر ہی نہیں دیکھنا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک اہم پہلو ہے، بلکہ اس کو اس وقت ملک کے نوجوانوں میں پائی جانے والی مایوسی اور ملک کے ایوان اقتدار، مقننہ اور دیگر اداروں پر سے بے اعتمادی کی علامت کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہیے۔
گذشتہ اسٹوری
اگلی اسٹوری