اداریہ

ادارۂ خاندان اور عقلی حل کی پیچیدگیاں

کلکتہ ہائی کورٹ میں بچوں کے ساتھ جنسی بد سلوکی کی روک تھام کے قانون (POCSO) سے متعلق ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ججوں نے جو تبصرہ کیا ہے اس کو سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘ججوں کا کام لوگوں کو نصیحت کرنا نہیں ہے’۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ "ہر نوعمر خاتون کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جنسی خواہشات پر کنٹرول کرے کیوں کہ جب وہ صرف چند لمحوں کی لذت کے لیے اپنی اس خواہش کو پورا کرتی ہے تو سماج کی نظر میں وہی غلط سمجھی جاتی ہے”۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے کلکتہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ایک انتظامی حکم نامہ جاری کیا، جس کی بنیاد پر ایک از خود (Suo Moto) داخل کردہ عرضی کی سنوائی کرتے ہوئے جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس پنکج متل پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ “مقدمات کے فیصلوں میں ججوں کو اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور فیصلے تحریر کرتے ہوئے اپنے شخصی نقاط نظر کی وکالت یا حمایت کرنا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے”۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں اور بھی ایسی کئی باتیں ہیں جو نہایت ہی قابل اعتراض، بلکل ہی غلط اور بھارت کے آئین کی دفعہ 21 کے تحت نوعمروں کو جو حقوق عطا کیے گئے ہیں ان کے خلاف ہیں۔
کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے اور اس پر سپریم کورٹ کی سرزنش سے سماج میں عورتوں اور مردوں کے درمیان تعلقات کا مسئلہ اور اس معاملے میں مطلوب رویہ پھر ایک بار بحث کا موضوع بن گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مغربی بنگال کے ضلع 24 پرگنہ کی ایک عدالت نے ایک فرد کو کم سن (یعنی اٹھارہ سال سے کم عمر) لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کے جرم میں بیس سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔ متعلقہ فرد نے اس فیصلے کے خلاف کلکتہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ مقدمے کے دوران یہ ثابت ہوا کہ یہ تعلق دونوں کی رضا مندی کے ساتھ قائم ہوا تھا۔ چنانچہ کلکتہ ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے مذکورہ شخص کو بری کر دیا اور ساتھ میں نو عمر لڑکیوں کو جنسی جذبات پر کنٹرول کی مذکورہ بالا نصیحت بھی کردی۔کلکتہ ہائی کورٹ نے اس POCSO ایکٹ کے ضوابط میں اصلاحات کی ضرورت پر بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ "نو عمر مرد اور عورت کی رضامندی کے ساتھ کسی استحصال کے بغیر ہونے والے جنسی عمل اور زنا بالجبر کو مساوی قرار دے کر اس قانون نے نو عمر مردوں اور عورتوں کے وقار اور ان کی جسمانی پختگی پر ضرب لگائی ہے”۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ 16 برس کے نوجوانوں کے درمیان دونوں کی رضامندی کے ساتھ قائم ہونے والے جنسی تعلق کو جرائم کی فہرست سے نکال دینا چاہیے، البتہ 18 سال سے کم عمر بچوں کو POCSO ایکٹ کے ذریعے ہر قسم کی جنسی زیادتیوں سے تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔
کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلے اور اس پر سپریم کورٹ کی سرزنش پر ہم قانونی نقطہ نظر سے کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ البتہ اس طرح کے فیصلوں کے اخلاقی مضمرات پر ہندوستان کے تمام شہریوں کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ اس سے قبل 2018 میں بھی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعے تعزیرات ہند کی دفعہ 497 کو منسوخ کرکے شادی شدہ افراد کے دوسروں کے ساتھ ناجائز جنسی تعلق کو جرم کی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔ یہ قانون 1860 سے ہمارے ملک میں رائج تھا اور اس کے مطابق شادی کے باہر ہر قسم کے جنسی تعلق کو قانوناً جرم قرار دیا گیا تھا۔
ہمارے خیال میں اس طرح کے فیصلے اور تبصرے مرد اور عورت کے درمیان تعلق کی درست نوعیت کے نہ سمجھنے کا نتیجہ ہیں۔عورت اور مرد کے تعلق کا مسئلہ دراصل انسانی تمدن کا ایک بنیادی مسئلہ ہے اور انسانی سماج کی بہتری اور بربادی کا انحصار اسی کے صحیح حل پر ہے۔ قدیم زمانے سے ہی مرد و عورت کے درمیان تعلق کو قانونی شکل دینے کا اہتمام ہوتا آیا ہے، کیوں کہ تعلق کی اسی شکل کے ذریعے ایک خاندان کا ادارہ وجود میں آتا ہے اور یہی ادارہ نسل انسانی کے استحکام اور ان کی موثر تربیت کا سب سے اہم ذریعہ ہے، جبکہ اس قانونی شکل کے بغیر مطلق آزادی کے نام پر ہر قسم کے جنسی تعلق کو جواز عطا کر دینے سے انسانی سماج کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کے تار و پود بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ اس لیے جنسی معاملات میں انسانوں کو مطلق آزادی نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جس طرح چاہیں ان خواہشات کی تکمیل کریں۔ یہ آزادی مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے غلط ہے، لیکن خواتین کے لیے اس میں قباحت کا ایک پہلو یہ ہے کہ عورت کی قدرتی ساخت کے سبب اس کے بھیانک نتائج صرف اسی کو بھگتنے پڑتے ہیں۔
عدالتوں اور ججوں کی جانب سے دیے جانے والے اس طرح کے فیصلوں اور تبصروں کی پشت پر عورتوں اور مردوں کی مساوات کا بھی نظریہ کار فرما رہتا ہے۔ عورتوں اور مردوں کے فطری دائرہ کو سمجھے بغیر دونوں کو ایک قرار دے کر دونوں سے ایک جیسے رویے کی امید رکھنا انسانی فطرت کے بھی خلاف ہے اور طبعی نقطہ نظر سے بھی یہ غلط ہے۔ یقیناً انسان ہونے کی حیثیت سے مردو اور عورت دونوں برابر ہیں۔ تمدن کی تعمیر، تہذیب کی تشکیل اور انسانیت کی خدمت میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ دونوں بھی دل و دماغ، عقل و جذبات اور خواہشات اور بشری ضروریات رکھتے ہیں۔ انسانی تمدن کی فلاح کے لیے دونوں کی یکساں تربیت اور عقلی و فکری نشوونما ضروری ہے تاکہ انسانی تمدن کی خدمت میں ہر ایک اپنا پورا حصہ کما حقہ ادا کرسکے۔ اس اعتبار سے دونوں کے درمیان مساوات کا نظریہ درست ہے اور ہر صالح سماج کا فرض ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی اپنی فطری استعداد اور صلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ ترقی کے مواقع فراہم کرے۔ لیکن اس مساوات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں سے اپنی اپنی فطری خصوصیات چھین کر انہیں ایک بنا دیا جائے۔ اگر ایسا ہو تو انسانی سماج اپنی فطری ساخت پر قائم نہیں رہ سکتا۔
عورتوں اور مردوں کے درمیان تعلق کے اس معاملے میں اسلام نے نہایت ہی فطری اور مبنی بر عقل رویہ اختیار کیا ہے۔ اس نے شادی کے علاوہ ہر قسم کے جنسی تعلق کو نہ صرف ممنوع قرار دیا ہے بلکہ اس کی طرف لے جانے والے تمام راستوں کو بھی بند کر دیا ہے۔ خاندانی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف تعلیمات دی ہیں اور اس معاملے میں عورتوں اور مردوں کے فطری میلانات کے مطابق کاموں کی تقسیم بھی کر دی ہے۔ اہل اسلام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انسانوں کے سامنے اسلام کے اس فطری نظام کو واضح انداز سے پیش کریں اور بتائیں کہ اسی طرز معاشرت میں انسانی سماج کی حیات ہے، ورنہ انسان نے جب جب اپنی عقل سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی اس نے بری طرح ٹھوکر کھائی ہے۔