فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت کم و بیش پچہتر برس سے مسلسل جاری ہے لیکن گزشتہ پچاس دنوں کے دوران اسرائیل نے جنگی و بین الاقوامی حدود اور انسانی حقوق کو جس بے دردی کے ساتھ پامال کیا ہے اس نے ظلم و زیادتی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔اسرائیل نے اپنی بے تحاشا بمباری کے ذریعے پندرہ ہزار سے زیادہ عام غیر مسلح شہریوں، معصوم بچوں اور خواتین کا قتل عام کیا۔ ہزاروں مکانات، کئی ہسپتالوں، اسکولوں اور عبادت گاہوں کو کھنڈر بنا دیا۔ اس تباہی و بربادی اور سنگین جنگی جرائم کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کے وزیر اعظم کا مواخذہ کرے اور بین الاقوامی عدالت میں نتن یاہو پر ان جرائم کے لیے مقدمہ چلایا جائے۔
اسرائیل کی حالیہ جارحیت نے انسانی حقوق اور جمہوریت کے عالمی اجارہ دار بعض یورپی ممالک اور امریکہ کی حکومتوں کے قبیح چہروں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ امریکہ، کینڈا، برطانیہ اور بعض دوسرے یورپی ممالک جو ابتدا ہی سے اسرائیل کی پشت پناہی کرتے آ رہے ہیں، انہوں نے پچھلے پچھتر برسوں کی اسرائیلی جارحیت کو نظر انداز کرکے محض 7؍ اکٹوبر کی کارروائی کو بنیاد پر اسے فلسطینیوں پر ہر طرح کے ظلم وزیادتی کو روا رکھنے کے لیے چھوٹ دے دی۔ وہ تو فلسطینیوں کی مسلسل مزاحمت، ان کے غیر معمولی صبر و استقامت تھی اور دنیا بھر کے انصاف پسند عوام کی جانب سے فلسطینی عوام کی حمایت اور اسرائیلی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف مسلسل احتجاج تھا جس کی وجہ سے صورت حال میں کچھ تبدیلی ہوئی۔ اسرائیل کی جارحیت اس قدر غیر انسانی اور وحشیانہ تھی کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوتریس یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ‘حملوں کی سزا مجموعی طور پر تمام فلسطینیوں کو دی جا رہی ہے’۔ انہوں نے بین الاقوامی انسانی قوانین کی واضح خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس مسلح تصادم میں کوئی بھی فریق قانون سے بالاتر نہیں ہے’ اور یہ کہ ‘حماس کا حملہ کہیں خلا میں نہیں ہوا ہے’۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘فلسطینی عوام چھپن سال سے قبضے کے گھٹن بھرے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں’۔ اگرچہ سکریٹری جنرل کے اس بیان کے بعد اسرائیلی وزیر خارجہ نہایت برہم ہوئے اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے گوتریس سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے ایکس (سابقہ ٹوئیٹر) ہینڈل پر لکھا کہ دہشت گردی اور قتل و غارت کی تائید و حمایت کرنے والے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اب اس عالمی ادارے کی قیادت کے اہل نہیں ہیں۔دنیا بھر کی اس تبدیل شدہ صورت حال میں امریکہ اور دیگر ممالک کی حکومتیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ اسرائیل کی جانب سے عام انسانوں اور عوامی تنصیبات پر حملے اور بمباری رکنی چاہیے۔
فلسطینیوں کے صبر و استقلال اور دنیا بھر کے انصاف پسندوں کے احتجاج کے بعد عالمی دباو اور اسرائیلی عوام کے مخالف حکومت مظاہروں کی وجہ سے بالاخر اسرائیل کو چار دن کی سہی، عارضی جنگ بندی کے لیے راضی ہونا پڑا جس کے دوران دونوں فریق مختلف قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہوئے۔ اس عارضی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے دوران رہا ہونے والے اسرائیلی قیدیوں کی جانب سے فلسطینوں کے حسن سلوک کے متعلق جو مثبت رائے دی جارہی ہے اس نے بھی فلسطینیوں کے خلاف پھیلائے گئے پروپیگنڈے کی پول کھول دی ہے۔ حماس کے جنگجووں نے جب اسرائیل کے قیدیوں کو ریڈ کریسنٹ کے حوالے کیا تو انہوں نے کسی پریشانی اور تکلیف کے بغیر خوش دلی کے ساتھ ہاتھ ہلاکر انہیں الوداع کہا۔ واضح رہے کہ سب سے پہلے رہا ہونے والی ایک معمر خاتون اپنی رہائی کے بعد میڈیا سے راست گفتگو میں فلسطینیوں کے حسن سلوک کی تعریف کرچکی تھیں جو اسرائیل کے لیے ندامت اور پریشانی کا باعث بن گئی۔ چنانچہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی قید سے رہا ہونے والی خواتین اور بچوں کو میڈیا سے بات کرنے سے روک دیا۔ دوسری طرف اس جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے دوران بھی مغربی میڈیا کی وہی غلط بیانی اور ان کا دہرا رویہ سامنے آرہا ہے۔ بی بی سی نے اسرائیلی قید سے رہا ہونے والی ایک فلسطینی لڑکی کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور اس معاملے میں اپنے روایتی تعصب اور قدیم روش کا ثبوت دیا ہے جس سے مغربی میڈیا کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آرہا ہے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی یہ عارضی جنگ بندی کافی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے ہونے والی مسلسل جارحیت پر قدغن لگائے اور اس تنازعہ کے مبنی بر عدل حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے۔ اس معاملے میں سب سے اولین ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جنگ بندی عارضی نہیں بلکہ مستقل ہو۔ دنیا کے تمام انصاف پسند ممالک مل کر خطے میں فلسطینیوں کی ایک آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کو یقینی بنائیں۔ ساتھ ہی اس پچاس روزہ قیامت خیز جنگ کے دوران فلسطین کی شہری آبادی میں جو تباہی ہوئی ہے اس کی تعمیر نو اور ضروریات زندگی کی فوری بحالی کے لیے پھر پور اقدامات کیے جائیں۔
یہ بات قابل قدر ہے کہ اس موقع پر ملک کے چند میڈیا اداروں اور بعض شدت پسند عناصر کے سوا بھارت کے انصاف پسند عوام کی ایک بڑی تعداد نے بالعموم اسرائیلی جارحیت کی پرزور مذمت کرتے ہوئے فلسطینی کاز کی حمایت میں اپنی آواز بلند کی اور حق و صداقت کا ساتھ دیا ہے۔ اس مرحلے پر حکومت ہند کو بھی چاہیے کہ وہ فلسطین سے متعلق ملک کے دیرینہ موقف پرقائم رہے اور اپنی سفارتی استعداد کو کام میں لاتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام میں بھر پور کردار ادا کرے۔
گذشتہ اسٹوری