بھارت کے پانچ صوبوں میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا عمل جاری ہے۔ ان اسمبلی انتخابات کا سلسلہ 30؍ نومبر کو تلنگانہ اسمبلی انتخابات کے ساتھ ختم ہوگا۔ بعض سیاسی تجزیہ نگار ان انتخابات کو 2024 کے پارلیمانی انتخابات کا سیمی فائنل قرار دے رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی اپنے اقتدار کو بچانے اور راجستھان و چھتیس گڑھ میں کانگریس سے اقتدار چھیننے کی جان توڑ کوشش میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ وہ تلنگانہ میں بھی اپنے قدموں کو مضبوط کرنے کی خواہش مند ہے۔ تمام ہی سیاسی پارٹیوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ عوام ان پر اعتماد کریں اور ان کو ووٹ دے کر مسندِ اقتدار پر فائز کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ عوام کی خوشحالی، روزگار اور فلاح و بہبود کے لیے بہت سارے دل فریب وعدے کرتے ہیں تاکہ عوام ان کے ان خوش نما وعدوں پر یقین کرکے اقتدار کو ان کی جھولی میں ڈال دیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں ان میں سے بعض وعدے پورے بھی کرتی ہیں جس سے عوام کی تکلیف دہ زندگی میں کچھ راحت کا سامان بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن جب سے بی جے پی نے عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا ہے اس نے ہندوستانی سیاست کے پورے بنیادی ڈھانچے ہی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ دستور کے شرائط، جمہوری اقدار، انتخابی ضابطہ اخلاق، زبان اور اسلوبِ بیان سب کچھ بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اور پورے دھڑلے سے ان تمام اصولوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں جو ہمارے جمہوری ڈھانچے کی بنیاد ہیں۔
ہندوستان اپنے دستور اور نظریے کے اعتبار سے ایک سیکولر اور مذہبی لحاظ سے ایک غیر جانب دار ملک ہے، اور ایک ایسے ملک میں جہاں دنیا کے تمام بڑے مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے رہتے بستے ہوں، جہاں تین سو سے زائد ذاتیں اور تقریباً چار ہزار ذیلی ذاتیں موجود ہوں، چار سو سے زائد زبانوں اور بولیوں کا چلن ہو، وہاں کسی ایک مذہب، زبان اور کلچر کی اجارہ داری ملک کی بقا اور اس کی سلامتی کے لیے نہایت ہی مہلک ثابت ہوگی۔ چنانچہ ملک کے دستور اور اس کے مختلف اداروں کے ضوابط میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ کوئی بھی گروہ اپنے مذہب کو کسی بھی مقصد کے لیے بطور وسیلہ استعمال نہ کرسکے۔ انتخابات کے سلسلے میں بھی یہ بات نہایت ہی وضاحت کے ساتھ کہی گئی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر نہ تو ووٹ مانگے جا سکتے ہیں اور نہ اس سلسلے میں لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام پابندیوں کے باوجود آزادی کے کچھ برسوں بعد مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے مذہب اور مذہبی جذبات کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ اس معاملے میں بی جے پی اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ اس نے اقتدار تک پہنچنے کے لیے نہ صرف مذہب کا سہارا لیا ہے بلکہ دو مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب جب کہ اس کے اقتدار کو دس برس مکمل ہونے والے ہیں تو اس نے اپنے اس اقتدار کی بقا کے لیے پوری طرح کھل کر مذہب کا کارڈ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ وزیر داخلہ اور وزرائے اعلیٰ جیسے دستوری اور ذمہ دارانہ مناصب پر فائز رہ کر کھلے عام مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگے جا رہے ہیں، مذہب کی دہائی دی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں تمام اصولوں کو پامال کرنے میں انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش اور تلنگانہ میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بہت ساری قابل اعتراض باتیں کہیں، مختلف ذاتوں اور مذہب کے ماننے والوں کے درمیان نفرت کے بیج بونے کی کوشش کی اور ساتھ ہی عوام سے یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر تلنگانہ کے عوام بی جے پی کو اقتدار کی کرسی پر فائز کریں گے تو تلنگانہ کے سارے لوگوں کو مفت میں رام للا کا درشن کروایا جائے گا۔ یہ کس قدر مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ ایک ملک کا وزیر داخلہ، دستور کی پاسداری کرنا جس کی منصبی ذمہ داری ہے وہ خود اس طرح دستوری اصولوں کی کھلے عام پامالی کرتے ہوئے ذرا نہیں شرماتا ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انتخابات کے موقع پر مذہب اور مذہبی جذبات کے استعمال کے سبب الیکشن کمیشن نے میرے والد کی تقریروں پر پابندی عائد کردی تھی لیکن آج جب وزیر داخلہ ہی اس طرح کی تقریریں کر رہا ہے تو الیکشن کمیشن کہاں ہے؟
ایک دل چسپ صورت حال یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم دوسری سیاسی جماعتوں کو مفت کی ریوڑیاں بانٹنے پر طنز کے تیر برساتے ہیں لیکن ان کے دست راست تو عوام الناس کو مفت میں رام للا کے درشن کا کھلے عام لالچ دے رہے ہیں۔ اس بے اصولی کا نہ تو وزیر اعظم کو کوئی احساس ہے اور نہ الیکشن کمیشن کو کسی کارروائی کی ہمت ہے۔ عوام کو اس مرحلے پر سوچنا چاہیے کہ انہوں نے ملک کو جن لوگوں کے ہاتھوں میں سونپا ہے وہ اسے کس طرف لے جا رہے ہیں؟ انتخابات کا مرحلہ ان کے لیے درست فیصلے کی گھڑی ہوتا ہے اور اس اہم مرحلے میں وہ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ صرف ان کے نہیں بلکہ پورے ملک کے مستقبل کو طے کرے گا۔