اداریہ

سیاسی اکثریت؛ چہ معنی دارد ؟

 انتخابات کی آہٹ کے ساتھ ہی ریلیوں اور جلسوں میں سیاسی لیڈروں کی بے سروپا باتوں کا ایک سیلاب آنے لگا ہے۔ہر سیاسی جماعت کی یہ کوشش ہے کہ اپنے دل فریب نعروں اورخوش کن وعدوں سے رائے دہندوں کو اپنی جانب راغب کرکے ان کے ووٹو ں کو اپنے حق میں کرلیا جائے۔یہ مہم اگر مثبت بنیادوں پر چلائی جائے تو کوئی مسئلہ نہیں کہ لوگ محض فریب کھا کر کسی ایک جماعت کو تخت اقتدار پر متمکن کردیتے ہیں اور اگلے پانچ برس تک افسوس کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر انتخاب جیتنے کے لیے ملک کے مختلف طبقات کے درمیان نفرت اوردوری پیدا کرکے، انہیں ایک دوسرے سے خوف زدہ کرکے انہیں بے یقینی اور بے اعتمادی میں مبتلا کردیا جائے اور ملک کے ماحول میں نفرت و دشمنی کا زہر گھول دیا جائے تو پھر اس کے اثرات محض پانچ برس تک نہیں رہیں گے بلکہ ایک طویل عرصے تک ملک کے عوام اس کے نتائج بھگتتے رہیں گے۔ موجودہ حکم راں جماعت نے تو اس معاملے میں پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ بی جے پی نے تو اپنا سیاسی سفر نفرت کی بنیاد پر ہی شروع کیا اور اسی کے سہارے وہ اقتدار تک پہنچ پائی۔خیر سے بی جے پی کو یہ بھی زعم ہے کہ وہ ایک نظریاتی یا اصولی پارٹی ہےاور اپنے انتخابی جلسوں اور ریلیوں میں نظریاتی اور اصولی باتیں پیش کرکے ملک کی خدمت کررہی ہے یا وہ مختلف امور پر علمی انداز سے مباحث کی خواہش مند ہے۔لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہے۔ پارٹی کے مختلف قائدین انتخابی جلسوں میں انتہائی سطحی، گھٹیا،بے سروپا اور نہایت ہی گم راہ کن باتیں کرتے ہیں اور اس بات کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ ماحول پولرائز ہوجائے۔پارٹی کے عام قائدین کے علاوہ جب وزارت عظمیٰ اور وزارت داخلہ جیسے انتہائی اہم اور ذمہ دارانہ مناصب پر فائز افراد اس طرح کی اوچھی باتیں کرنے لگیں اور مختلف ملکی و عالمی واقعات کو ایک نیا رخ دے کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے لگیں تو ملک کے شہریوں کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا ضروری ہوجاتا ہے کہ آخر یہ ملک کو کدھر لے جانا چاہتے ہیں۔فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے پر وزیر اعظم کے بیان اور وزارت خارجہ کے سرکاری موقف کے اظہار کو بھی اسی پہلو سے دیکھا جانا چاہیے۔
گزشتہ دنوں ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ملک کے وزیر اعظم نے کہا کہ اکثریت پرستی میں کیا خرابی ہے؟ جب ہم فرقہ پرستی کی مخالفت کرتے ہیں تو نسل پرستی کی تائید کیسے کرسکتے ہیں؟ اگر ہندو اکثریت پرستی بھارتی جمہوریت کے لیے خطرہ ہے تو بہوجنوں کی اکثریت پرستی کیسے درست ہوسکتی ہے؟ یہ سوالات کوئی سادے سے سوالات نہیں ہیں بلکہ مودی جی نے بڑی ہی چالاکی سے ہندوتو کے نظریے کو معمول بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، گرچہ انہوں نے راہول گاندھی کی جانب سے پیش کیے گئے کانشی رام کے نعرے کا جواب دیا ہے ۔ کانشی رام نے کہا تھا کہ ’’جس کی جتنی سنکھیا بھاری اس کی اتنی حصے داری‘‘۔ مودی جی نے اس کو بڑی چالاکی کے ساتھ ہندو اکثریت پرستی سے جوڑ کے اپنی بات کردی۔ملک کے وسائل ، سیاسی اقتدار ، ملازمتوں اور دیگر امور میں آبادی کے لحاظ سے حصہ داری کا مطالبہ جمہوریت کا ایک بنیادی اصول ہے۔آزادی کے اتنے برسوں کے بعد بھی ملک میں مختلف ذاتوں اور طبقات کو ان کی آبادی کے لحاظ سے حصہ داری نہیں مل پائی ہے اور ان کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اور اس بنیاد پر انصاف کے مطالبے کو بی جے پی کی ہندو اکثریت پرستی کے مساوی قرار دے کر اپنی ہندو اکثڑیت پرستی کو جواز عطا کرنا نہایت ہی اوچھی حرکت ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ملک کی حقیقی اکثریت کا یہ مطالبہ کسی کو محروم کرنے کا مطالبہ نہیں بلکہ انہیں واجبی حقوق کے عطا کرنے کا مطالبہ ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ جب ریاست میں 80 فیصد اور 20 فیصد کی بات کرتے ہیں تو وہ 80 فیصد آبادی کے لیے ریاست کے 80 فیصد وسائل کا دعویٰ نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ باقی 20 فیصد کو ہر چیز سے محروم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ حالاں کہ یہ ایک سنگین حقیقت ہے کہ ملک میں ایس سی ، ایس ٹی ، اوبی سی ملک کی آبادی کا 70 سے 75 فیصد ہیں ۔ اس کے باوجود عوامی زندگی کے کسی بھی شعبے میں ، خوادہ وہ سیاست ہو، بیوروکریسی ہو یا کاروبار ، ان کی حصے داری نصف بھی کم ہے۔ دوسری طرف اعلیٰ ذات کے لوگ سیاست و بیوروکریسی کے بشمول ملکی وسائل کے 50 سے 80 فیصد حصے پر قابض ہیں حالاں کہ ان کی تعداد 20 فیصد یا اس سے بھی کم ہے۔ ان بنیادی مسائل کو جب محض سیاست کی عینک سے دیکھا جاتا ہے تو پھر باتوں کو اسی طرح گھماپھرا کر لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اکثریتی پارٹی کی حکمرانی کو اکثریت پرستی سے الگ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جدید جمہوری ریاست میں سیاسی اکثریت کا اصول رائج ہے۔ یہ پیدائش کی بنیاد پر بننے والی کسی اکثریتی قوم کی مطلق حکمرانی کی بات نہیں ہے۔ ملک کے آئین نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ سیاسی اکثریت کی حکمرانی بھی مطلق یا بے قید حکمرانی نہیں ہے، اسے کچھ حدود کا احترام کرناہوگا۔ آئین نے کسی بھی دوسرے جمہوری آئین کی طرح مذہبی ، لسانی اور ذات پات کی اقلیتوں کے لیے کچھ ناقابل تسخیر حقوق متعین کیے ہیں۔ جب کہ مزعومہ ہندو اکثریت پرستی کی سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نسلی، لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو ان بنیادی حقوق اور ان کی حصہ داری سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ہندوستانی عوام کوان تمام سنگین مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے اور وقت کے ہاتھ سے نکلنے سے پہلے ہی اس سیلاب پر بندھ باندھنا چاہیے ورنہ یہ ملک کی سلامتی اور اس کی اصل حیثیت کو متاثر کرکے رکھ دے گا۔