اداریہ

ملاقاتوں کے سلسلے عوام تک پہنچیں

گزشتہ دنوں جمعیتہ العلمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ہریدوار میں سوامی کیلاش آنند گری سے ملاقات کی اور ملک کے مختلف سلگتے ہوئے مسائل پر ان کے ساتھ گفتگو کی۔ قومی میڈیا میں اس ملاقات کو کافی اہمیت کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے اور اس کو ملک میں امن و شانتی اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جارہا ہے۔ یقیناً مولانا ارشد مدنی ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک اہم تنظیم کے سربراہ ہیں اور ہریدوار میں انہوں نے جس شخصیت سے ملاقات کی وہ بھی ہندووں کی ایک اہم مذہبی شخصیت ہیں۔ اس ملاقات کے موقع پر سوامی کیلاش آنند گری نے مولانا ارشد مدنی کو شال اوڑھائی اور اتراکھنڈ کی مخصوص ٹوپی پہنائی، مولانا نے بھی سوامی کیلاش آنند کو قرآن کریم کا ہندی ترجمہ پیش کیا۔ مسلم مذہبی و سماجی قائدین اور ہندو دھرم گرووں و دیگر رہنماوں کے درمیان اس طرح کی خیر سگالی ملاقاتیں یقیناً بہت اچھی ہیں اور ملک کے موجودہ ماحول میں بڑی اہمیت کی حامل بھی ہیں بلکہ ان کے دائرے کو مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس طرح کی ملاقاتوں کا حقیقی فائدہ تو اسی وقت حاصل ہوگا جب اس کے اثرات عوام میں، سماج میں اور سیاست و صحافت میں زمینی سطح پر محسوس ہوں ورنہ اس طرح کی رسمی ملاقاتیں اور سرگرمیاں بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں اور ملک و سماج کے دشمن عناصر، سادہ لوح عوام کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے اسی راستے پر چلاتے رہتے ہیں۔ مولانا ارشد مدنی نے اس سے قبل آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت سے بھی ملاقات کی تھی اور ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ ملاقات بھی کافی خوشگوار رہی تھی اور اس میں بھی مختلف اہم موضوعات پر دونوں کے درمیان گفت و شنید ہوئی تھی۔ لیکن اس ملاقات کے بعد صورت حال میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اسی ہریدوار میں گزشتہ دنوں ایک دھرم سنسد بھی منعقد ہوئی تھی، جس میں علانیہ طور پر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا گیا اور ان کی نسل کشی کے لیے ہندوؤں کو اکسایا گیا تھا۔ اگرچہ پوری دنیا میں اس پر کافی تنقیدیں ہوئیں لیکن آر ایس ایس اور دیگر ہندو مذہبی قائدین کی جانب سے اس کے سدباب کے لیے کوئی منظم کوشش نہیں ہوئی نہ ہی مذمت ہوئی۔ اس کے علاوہ مختلف تنظیمیں مسلسل اس بات کی کوششیں کرتی رہتی ہیں کہ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیوں کی دیوار اونچی سے اونچی ہوتی رہے، ان کے درمیان نفرف و دشمنی کے جذبات پروان چڑھتے رہیں۔ وہ ملک میں ہونے والے ہر واقعے اور ہر مسئلے کو اسی مذموم مقصد کے لیے استعمال کرتی رہتی ہیں۔ ہندو بھائیوں کو بھی اس بات کی اہمیت کو محسوس کرنا چاہیے کہ ایک خاص طبقہ انہیں ایک ایسے راستے پر لے جا رہا ہے جس کا انجام نقصان کی صورت ہی میں نکلے گا۔ اسی وجہ سے ہندوؤں و مسلمانوں کے درمیان جو اعتماد کی فضا تھی وہ بتدریج کمزور ہو رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان کے عوام کو مسئلے کی اس اصل جڑ سے واقف کروایا جائے اور انہیں اس کے حل کے لیے تیار کیا جائے۔ اس کے لیے ملک کے سنجیدہ شہریوں کو آگے آکر اس سلسلے میں مخلصانہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ جب تک سماجی و عوامی سطح پر ان کوششوں اور سرگرمیوں کے اثرات کو زائل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہ ہو اس طرح کی ملاقاتیں بس ایک رسمی سرگرمی بن کر رہ جائیں گی۔
ملک کے عوام کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ ہندوستان میں بسنے والے بے شمار طبقات اپنے عقائد اور رسوم و شعائر اور کئی فروعی معاملات میں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی تاریخ و تہذیب اور دیگر معاملات میں بعض امور ایسے بھی ہوں جن کی بنیاد پر ان کو آسانی کے ساتھ ایک دوسرے کا مخالف اور دشمن بنایا جا سکتا ہو، لیکن اگر ملک کے عوام اپنی قوتوں کو ان اختلافات اور تصادم کے امکانات کو دور کرنے میں لگانے کے بجائے ان کی آبیاری اور ان کی پرورش میں صرف کرنے لگیں تو اس سے نہ تو انفرادی طور پر ان طبقات کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نہ بحیثیت مجموعی ملک کو۔ بلکہ ایسی کوششوں سے امن وامان کو الٹا نقصان ہی پہنچتا ہے اور ملک کی ترقی رک جاتی ہے۔ لہٰذا یہ ملک کے تمام ہی طبقات بالخصوص مسلمانوں اور ہندووں دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورت حال کو بدلنے کی ہر ممکن کوشش کریں تاکہ نفرت پھیلانے والوں کے بالمقابل گاوں، قصبات، شہر، صوبے اور ملک کی سطح پر عوام کے درمیان آپسی محبت پر مبنی گہرے تعلقات قائم ہوں۔ لوگوں میں مذہب کی بنیاد پر دشمنی کے بجائے انہیں ان کے مذہب اور ان کی جداگانہ حیثیت کے ساتھ قبول کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان خوشگوار مکالمے ہوں اور علمی دنیا میں رائج طریقے کے مطابق اختلاف رائے کو بھی پوری خندہ پیشانی کے ساتھ تسلیم کرکے ایک ساتھ رہنے کا گر سکھایا جائے۔ عوام اگر اس بات کا تہیہ کرلیں کہ وہ اہل سیاست اور اہل مذہب کسی کو بھی مذہب اور مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے تو ہی ملک کی صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے۔