اداریہ

کرکٹ نفرت کا اوزار کیوں کر بنا؟

کرکٹ مقابلوں میں بھارت بمقابلہ پاکستان کھیل جتنا میدان پر کھیلا جاتا ہے اس سے زیادہ ‏سوشل میڈیا کے میدان پر بچھائی گئی نفرت کی پِچ پر کھیلا جاتا ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو ختم ‏کرنے کی آڑ میں اسرائیلی حکمرانوں کی جارحانہ کارروائیوں نے بھارت کے جنگی جنونیوں کو گھر بیٹھے ‏ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔ چنانچہ نفرتی ایجنڈہ رکھنے والی ٹولیاں معصوم فلسطینی آبادیوں کو خاک میں ملا ‏دینے والے دلخراش مناظر اور اقتدار کے بھوکے صیہونیوں کے جنگی جنون کو قوم پرستی کے لیے ایک ‏قابل تقلید عمل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اس یک طرفہ جنگ کے ذریعہ ملک ‏کے مسلمانوں کی توہین کا سلسلہ کم تھا کہ اب احمدآباد میں پاکستان کے ایک ‏کھلاڑی کے ساتھ انتہائی ناشائستہ، اشتعال انگیز اور شرم ناک حرکت کی خبر نے ملک اور دنیا میں بھارت ‏کا سر ایک بار پھر نیچا کر دیا ہے۔ 14؍ اگست کو وَن ڈے ورلڈ کپ کرکٹ کے مقابلے میں بھارت اور پاکستان کی ٹیمیں ‏آٹھویں بار آمنے سامنے تھیں۔ نریندر مودی اسٹیڈیم میں وہ نظارہ دیکھنے کے لائق تھا جب بھارتی کرکٹ ‏شائقین پاکستانی کھلاڑیوں کو چھیڑنے کی غرض سے مذہبی جنونی نعرہ لگا رہے تھے، یہ وہی ‘‘جے ایس ‏آر‘ کا نعرہ ہے جس کی چیخ پکار نے ملک میں کئی سنجیدہ آوازوں کو دبا دیا ہے۔ اکیلے گھیر کر متعدد مسلمانوں کی ماب لنچنگ کر ‏کے ان کو مار ڈالا گیا۔ یہ کہنا دشوار نہیں کہ کرکٹ میدان کے یہ جنونی ’حُبِّ علی میں نہیں بلکہ بغض ‏معاویہ’ میں یہ اوچھی حرکت کر رہے تھے۔ محمد رضوان کے آؤٹ ہونے کے بعد ان پر طنزیہ نعرے لگانے کی اس حرکت کے ارتکاب کے دوران انہوں نے اس بات کو بھی یاد ‏نہیں رکھا کہ ان ہی کرکٹروں پر پھول برسا کر، روایتی رقص اور موسیقی کا پر تکلف انتظام ‏کر کے ہمارے منتظمین نے استقبال کیا تھا۔ حیرت کی بات نہیں کہ کانگریس سے نکل کر بی جے ‏پارٹی میں شامل ہونے اور بعد ازاں آسام کے وزیر اعلیٰ بننے والے ہمنتا بِسوا سرما نے اس کی پہل کی کہ آؤٹ ‏ہونے والے پاکستانی کرکٹروں کو شرمندہ کرنے کے لیے ’رام دھُن‘ کے ساتھ اسٹیڈیم میں جے سری رام ‏کے نعرے لگانے والوں کا ویڈیو پوسٹ کردیا، بعدہُ مرکزی وزیرِ کھیل انوراگ ٹھاکر نے بھی بہتی گنگا میں ‏ہاتھ دھونا ضروری سمجھا۔ پھر کیا تھا، ہر کس و ناکس کی دیس بھکتی کو رام بھکتی میں بدلتے دیر نہیں لگی۔ ‏خود ملک کے اندر متعدد حلقوں میں اس پر گرما گرم بحثیں ہوئیں کہ آخر پاکستان کے ساتھ ممبئی حملوں ‏کے بعد رشتوں میں کڑواہٹ کے ساتھ کرکٹ کا رشتہ بھی ختم کر دیا گیا تھا، تو آخر اب حالات میں کون ‏سی تبدیلی آگئی ہے جو ہم ان کا اس والہانہ رقص و سرور کے ساتھ استقبال کر رہے ہیں، جن کے مناظر ‏نے بہتوں کی فضیحت کا سامان کر دیا تھا۔ ایکس (سابقہ نام ٹویٹر) اور فیس بک پر تو جیسے طوفانِ بد تمیزی ‏عروج پر پہنچ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پورا ملک ’رام بھکتی‘ کی لہروں میں بہہ نکلا ہے۔ در اصل ہمیں اپنی ‏ترجیحات کو متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف تو ہم تجارت، سیاحت اور کھیل کود سے پیسہ کمانا ‏چاہتے ہیں تو دوسری طرف اکثریتی ووٹ بنک کی بھٹی بھی جلائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اور اسی لیے شاید جان ‏بوجھ کر ایسا کیا جاتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح بھارت اور پاکستان میدان میں ایک دوسرے کے مد ‏مقابل لا کھڑے کر دیے جائیں، پھر راشٹر پریم کی آڑ میں دھرم کا طوفان برپا کر دیا جاتا ہے۔
‏ مسلمان اپنے جذبات پر قابو رکھ رہے ہیں لیکن اب یہاں کی امن و انصاف کی علم بردار اکثریت اور خاص ‏کر سچے دھرم گروؤں کو مزید کھل کر میدان میں اترنا ہوگا کہ وہ اس منافقت کا پردہ فاش کریں اور بھولے ‏بھالے شہریوں کے جذبات کے استحصال پر بندھ باندھنے کا کام کریں۔ یوں تو تمل ناڈو کے بے باک وزیرِ ‏کھیل اودیے نِدھی اسٹالن نے مرکزی وزیر کھیل کو آئینہ دکھا ہی دیا کہ ’’ہندوستان اپنی سپورٹس مین شپ ‏اور مہمان نوازی کے لیے مشہور ہے لیکن احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں پاکستانی کھلاڑیوں کے ‏ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ ناقابل قبول ہے اور یہ ایک نئی پستی ہے۔ کھیل کو تو حقیقی بھائی چارے کو ‏فروغ دینے اور ملکوں کے درمیان متحد کرنے والی ایک قوت ہونا چاہیے۔ اسے نفرت پھیلانے کے لیے ‏بطور ہتھیار استعمال کرنا قابل مذمت ہے۔‘‘‏
لیکن اقتدار میں بیٹھے ہوئے اسرائیلی یہودیوں کی حب الوطنی سے تحریک پا کر میڈیا اور سوشل میڈیا پر مذہبی اور ‏جنگی جنون میں نہا دھولینے والے نفرت کے بیوپاریوں کو وہاں کی عوام سے بھی سبق لینے کی ضرورت ہے کہ امن ‏پسند اسرائیلی شہری ان کے اپنے وزیر اعظم نیتن یاہو کو  ’قاتل’ بتا کر ان کے استعفے بلکہ جیل ‏بھیجے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔