اداریہ

!امن کے لئے انصاف شرط ہے

فلسطین کی سرزمین ایک بار پھر خون سے لالہ زار ہو رہی ہے۔ غزہ پر آسمان سے ہزاروں ٹن آگ کے گولے برسائے جارہے ہیں، اسرائیل کی مسلسل بمباری سے شہر کی عمارتیں کھنڈر میں تبدیل ہوتی جارہی ہیں اور غزہ کی زمین معصوم انسانوں کے خون سے رنگین ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیل فلسطین تنازع کا تازہ ترین موڑ دراصل اسرائیل کی جانب سے ہونے والی مسلسل زیادتی اور طے شدہ معاہدوں کی یک طرفہ خلاف ورزی اور اشتعال کا نتیجہ ہے۔اہل فلسطین پچھلی کم و بیش ایک صدی سے مسلسل ناانصافی، ظلم و ستم اور ارض مقدس کی بے حرمتی کا زخم سہتے آرہے ہیں۔1917 میں برطانیہ عظمیٰ کے وزیر خارجہ کی جانب سے کیے گئے بالفور ڈیکلریشن سے لے کر 1948 میں مملکت اسرائیل کے ناجائز قیام تک، اور قیام اسرائیل کے بعد فلسطین کے عرب علاقوں کو صیہونیوں کی جانب سے زبردستی ہتھیانے، اہل فلسطین کو ان کے اپنے گھروں سے بے دخل کرنے اور ان کی نسل کشی تک، 1967 میں فلسطین کے ایک بڑے رقبے پر جبری قبضے اور یہودی بستیوں کی ناجائز آبادی کاری تک ظلم و ستم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو اسرائیل اور اس کے ہمنوا ملکوں نے اہل فلسطین کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کا یہ ظلم پچھلے ستر برسوں سے اسی طرح جاری ہے ۔اسرائیل نے امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کے بل پر نہ کبھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پاس ولحاظ رکھا نہ سیاسی معاہدات کی پابندی کی اور نہ ہی بین الاقوامی جنگی قوانین کی پاس داری کی۔آج کی نئی نسل صابرہ اور شتیلہ کے پناہ گزیں کیمپوں سے واقف نہیں ہے جہاں اسرائیل نے وحشیانہ بمباری کر کے ہزاروں معصوم بچوں، عورتوں و ضعیفوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔اسرائیلی جارحیت کا یہ سلسلہ 1948 سے مسلسل جاری ہے۔ ایک وسیع عریض رقبے والا ملک فلسطین آج سمٹ کر چند سو مربع میل کی ایک کھلی جیل میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔اسرائیل کی موجودہ حکومت اس معاملے میں پچھلی حکومتوں سے دو قدم آگے ہی ہے، وہ فلسطینی زمینوں پر مسلسل غاصبانہ قبضے کرکے یہودی بستیاں بساتی جارہی ہے، اس کے علاوہ مسحد اقصیٰ کی بے حرمتی کو بھی اس نے اپنا معمول بنا لیا ہے۔ حکومت اسرائیل کی ان پالیسیوں نے خطے کے امن و استحکام کو مزید خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس وقت بھی نتن یاہو نے اس امر کا برملا اظہار کیا ہے کہ وہ غزہ کو پوری طرح ختم کردیں گے اور اسی عزم کے ساتھ وہ غزہ پر مسلسل بمباری کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت خطے میں انسانی جانوں کا بڑے پیمانے پر اتلاف جاری ہے۔ اب جب کہ صورت حال بہت ہی دھماکو ہو چکی ہے، دنیا مسئلے کی اصل جڑ کو ختم کرنے کے بجائے حماس اور اہل فلسطین کو اس کا ذمہ دار قرار دینے میں لگی ہوئی ہے۔ جنگ کو ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا جو اجلاس منعقد ہوا تھا وہ بھی کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگیا۔ اجلاس میں نہ تو کوئی باضابطہ قرارداد پیش ہوسکی اور نہ ہی کوئی مشترکہ اعلامیہ ہی جاری ہوسکا۔ کہا جارہا ہے کہ امریکہ نے تمام رکن ممالک سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کریں، لیکن رکن ممالک نے امریکہ اور اسرائیل کے دباو کے باوجود یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔ دنیا کے نمایاں اور طاقت ور ممالک کسی تردد کے بغیر اسرائیل کی ہمدردی میں اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور مظلوم فلسطینیوں کو ہی مودر الزام ٹھہرانے لگے ہیں۔ میڈیا کی یک طرفہ چیخ و پکار کی وجہ سے بعض سادہ لوح افراد بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ حماس کو اس طرح کی پرتشدد کارروائی نہیں کرنی چاہیے تھی، پرامن بات چیت سے مسئلے کا حل نکالنا چاہیے تھا وغیرہ۔ یہ بات درست ہے کہ جنگ اور پرتشدد کارروائیاں کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں لیکن جب تک مسئلے کی اصل جڑ کو ختم نہیں کیا جاتا اور کشیدگی کے اصل اسباب کو دور نہیں کیا جاتا اس وقت تک پورے سلسلے واقعات میں سے کسی ایک واقعے کی مذمت یا تائید کرنا ہرگز قرین انصاف نہیں ہے۔فلسطین اور اسرائیلیوں کے تنازع کی تاریخی بنیادیں ہیں، ایک قوم کو اس کے وطن سے بے دخل کرکے دوسری قوم کو زبردستی وہاں بسایا گیا ہے۔ مسلسل ان کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہوتی رہی ہے۔ عالمی برادری جب تک اس اصل مسئلے کو حل کرنے اور اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے آگے نہیں آئے گی اس وقت تک اس مسئلے کا حل ہونا اور خطے میں امن و امان کا بحال ہونا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی یہ بات انسانی و اخلاقی اعتبار سے منصفانہ کہی جاسکتی ہے۔
اس موقع پر بھارت کی حکومت سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس مسئلے میں اپنا وزن انصاف کے پلڑے میں ڈالے، وہ اس بات کی کوشش کرے کہ مسئلے کا منصفانہ حل نکلے۔ واقعات کے سطحی تجزیے اور تعصب و تنگ نظری کے بجائے مسئلے کی گہرائی کے ساتھ تدبر کے ذریعے انصاف کے قیام میں اپنے اس عالمی اثر و رسوخ کو استعمال کرے جس کا ذکر وزیر اعظم اکثر اپنی تقریروں میں کرتے رہتے ہیں۔