اداریہ

کشیدگی کسی کے حق میں نہیں

بھارت اور کینڈا کے بیچ جاری سفارتی تنازعہ پچھلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تک جا پہنچا۔ اس وقت بھارت اور کینیڈا کے تعلقات پورے طریقہ سے منقطع ہوچکے ہیں، دونوں ممالک نے سفیروں کو واپس بھیج دیا ہے، اور بھارت نے کینیڈائی باشندوں کو ویزا دینے بھی بند کردئیے ہیں۔ تعلقات کی خرابی کا آغاز ایک سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے ہواہے، بتایا جاتا ہے کہ یہ ہردیپ سنگھ نجر خالصتان تحریک کے رہنما تھے، جو سکھوں کے لیے علیحدہ ملک خالصتان کے لیے کوشاں تھے۔ ویسے تو علیحدہ خالصتان ریاست کا مطالبہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے، سکھ برادری کا ایک پرانا خواب ہے کہ ان کی ایک علیحدہ خالصتان ریاست ہو، جس کے لیے وہ کئی دہائیوں سے جدو جہد کر رہے ہیں۔ علیحدہ خالصتان تحریک 1980 کی دہائی میں اپنے شباب پر تھی، بڑے پیمانے پر پنجاب میں مظاہرے ہوئے، پھر یہ تحریک اچانک تشدت کے راستے پر چل پڑی، آپریشن بلیو اسٹار کے ذریعے اس تحریک کو کچل دیا گیا، ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں، بلآخر علیحدہ خالصتان تحریک کمزور پڑگئی، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ علحیدگی پسند تحریک دم توڑ چکی، تاہم بھارت خالصتان تحریک کو اپنی قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔
جب سے بھارت میں فسطائی پارٹی برسرِ اقتدار آئی ہے تب سے یہ محسوس کیا جانے لگا ہے کہ یہ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو، صحافیوں اور مذہبی اقلیتوں بشمول مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کو خاص طور پر نشانہ بنا رہی ہے، اور اختلاف رائے کو دبانے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔ تاکہ فسطائی حکومت اپنے لیے ایک دشمن تیار کرے اور اس کے ذریعے سے وہ ہندوؤں کو اکھٹا کر سکے۔ مودی حکومت کی انہی پالیسیوں کے نتیجے میں علیحدہ خالصتان تحریک دوبارہ مضبوط ہونے لگی ہے۔ اسی طرح کی علیحدگی پسند رہنما امرت پال سنگھ تھے، جنہیں گزشتہ اپریل میں، حکومت نے پنجاب سے گرفتار کیا، جو سکھوں کے لیے آزاد مملکت کا مطالبہ لے کر اٹھے تھے۔ پولیس نے امرت پال سنگھ اور اس کے حامیوں پر اقدام قتل سمیت متعدد جرائم کا الزام لگا کر انہیں گرفتار کرلیا۔ چونکہ کئی دہائیوں کے بعد پھر ایک بار سکھ علیحدگی پسند تحریک نے سر اٹھایا تھا اسی لیے حکومت نے اسے ایک سنگین خطرہ محسوس کرتے ہوئے دوسرے ممالک سے اور خاص طور پر کینیڈا سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ سکھ علیحدگی پسند کی ہمت افزائی نہ کریں، ایسے گروہوں اور عناصر کو اپنے ملک سے اکھاڑ پھینکیں جو علیحدہ خالصتان کی بات کرتے ہیں اور ایسی کارروائیوں میں ملوث ہیں جس سے بھارت کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ بھارت کے اس موقف نے مودی کے حکومت میں آنے کے بعد شدت اختیار کرلی، دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید خرابی اس وقت آئی جب مودی حکومت نے تین متنازعہ زرعی قوانین کو پاس کیا، ان قوانین کے خلاف کسانوں نے ملک گیر احتجاج منظم کیا تھا اور جس کی حمایت میں غیر مقیم بھارتی سکھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا یہی وجہ ہے ان دو ممالک کے درمیان تعلقات جو پہلے سے نرم و گرم چل رہے تھے، مزید ابتری اور دونوں کے درمیان تناؤ کا باعث بنے۔
اس سے قبل دونوں ممالک بہت سارے معاملات میں ایک دوسرے کا تعاون حاصل کرتے رہے ہیں، کینیڈا اور بھارت نے 2018 میں ’’دہشت گردی اور انتہا پسندی‘‘ سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنس معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کو فروغ دیا، اور اس سے پہلے کئی سالوں سے، دونوں ممالک ایک دوسرے کے درمیان انٹیلی جنس افسران کو تعینات کر تے رہے ہیں۔ کینیڈائی سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس (CSIS) کے سابق سینئر انٹیلی جنس افسر مشیل جوناؤ کاٹسویا کا کہنا ہے کہ 1980 کی دہائی سے، بھارت بھی کینیڈا میں سکھ برادری میں اپنے افراد کو ’’جاسوسی کرنے کے لیے بھیج رہا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا، ’’وہ جاسوس سکھ برادری کی جاسوسی کر رہے ہیں، افراد کے بارے میں معلومات اکٹھا کر رہے ہیں، اور ان معلومات کو نئی دہلی کو رپورٹ کر رہے ہیں،‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’سکھ برادری اس غیر ملکی مداخلت کی وجہ سے خوف میں زندگی گزار رہی ہے۔‘‘ مشیل جوناؤ کاٹسویا کے مطابق، کینیڈائی حکام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بھارت چاہتا ہے کہ وہ سکھوں کی علیحدگی تحریک سے نمٹنے کے لیے ’’ بھارتی طریقہ‘‘ کار اختیار کرے۔
ملک میں رونما ہونے والے واقعات اور مودی حکومت کی پالیسیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم یہ صاف طور پر محسوس کرسکتے ہیں کہ کوئی چیز ان میں مشترک ہے کہ کبھی مسلمانوں کو عوامی ہجوم اپنی بربریت کا نشانہ بناتی ہے تو کبھی ہندؤ انتہا پسند عیسائی برادری کو ان کلیساؤں کو نذر آتش کرتی ہے ، منی پور میں ان پر تشدد کو روا رکھا جاتا ہے اور یہ سارے کام حکومت کی پشت پناہی میں ہو رہے ہیں، اور اب سکھوں کو ملک کا غدار کہا جا رہا ہے، نوجوانوں کے خلاف پولیس کی کارروائیاں جاری ہیں۔ مودی حکومت میں ملک کی مذہبی اقلیتیں محفوظ دکھائی نہیں دیتیں۔ اس معاملے میں بھارتی میڈیا کا رول بھی دیکھنے کے قابل ہے، وہ اپنی عادت سے مجبور ساری سکھ برادری کو کٹہرے میں کا کھڑا کر رہی ہے، گویا کہ ساری سکھ برادری علیحدگی پسند تحریک سے وابستہ ہے اور ملک کو توڑنا چاہتی ہے، خالصتان تحریک کے نام پر پوری سکھ برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس طرح وہ کشمیر میں کسی ایک دہشت گرد کارروائی پر مسلم کمیونٹی کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح اب خاص کر سکھ برادری ان کے نشانے پر ہے۔ میڈیا کا وہی غیر ذمہ دارانہ رویہ جو سابق میں تھا اب بھی برقرار ہے، نفرت اور پر خطر ماحول پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ سکھوں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے، نفرت انگیزی سے کس کو فایدہ ہونے والا ہے یک تو جگ ظاہر ہے، گودی میڈیا کا کام یہی ہے کہ سماج کو مختلف خانوں میں بانٹا جائے، سماج میں امن و سکون نہ رہے تاکہ ان کا کاروبار چلتا رہے، یہی نہیں بلکہ یہ گودی میڈیا کینیڈا کی عقل کو ٹھکانے لگانے کی باتیں کر رہا ہے، اس کو گھٹنوں کے بل لانے کی باتیں کی جارہی ہیں، اس طرح کی حرکتوں سے کیا نتیجہ نکلے گا؟ کیا ان باتوں سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہوگی؟ ایسی گفتگو سے نہ ماحول میں امن قائم ہوسکتا یےاور نہ ہی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دونوں ممالک آپس میں بیٹھ کر معاملے کو سنجیدگی سے حل کرلیتے، قاتل کو پکڑنے میں ایک دوسرے کا تعاون حاصل کرتے اور انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ قاتل کو پکڑا جائے اسے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے، قاتل کوئی بھی ہو آخر وہ قاتل ہی ہے۔ کینیڈائی وزیراعظم کا مطالبہ بھی تو یہی ہے کہ تحقیقات میں بھارت تعاون کرے، وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے گزشتہ ہفتے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’ہم اشتعال انگیزی یا مسائل پیدا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ ہم بھارت سے تحقیقات میں تعاون چاہتے ہیں‘‘۔ بھارت نے کینڈا سے ان الزامات کے ثبوت طلب کئے ہیں۔ اب ہمیں بھی چاہیے کہ تحقیقات میں تعاون کریں تاکہ مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکے، آپسی تعلقات منقطع کرنے سے کسی کا بھی فایدہ نہیں ہوگا، دونوں کو چاہیے کہ معاملات کو پرسکون ماحول میں حل کرلیں، اور آپسی تعلقات کو پھر سے استوار کر لیاجائے۔