اداریہ

چراغ تلے اندھیرا ؛

بی جے پی کے حلیف بھی یکساں سول کوڈ کے خلاف

افتتاح کے زائد از تین ماہ بعد لوک سبھا کے خصوصی اجلاس کے دوسرے دن پارلیمنٹ کے ارکان ہندوستانی پارلیمان کی جدید عمارت میں داخل ہوئے۔ 20؍ ستمبر سے اس نئی عمارت میں پارلیمنٹ کی کارروائیوں کا باقاعدہ آغاز ہوجائے گا۔ رپورٹس کے مطابق پانچ دن چلنے والے اس اجلاس میں آٹھ الگ الگ بل پیش کیے جائیں گے۔ اجلاس سے قبل سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی تھی کہ خصوصی اجلاس میں ‘ایک ملک ایک انتخاب’ اور ملک کے نام کی تبدیلی کی قرارداد بھی پیش ہوسکتی ہے۔ بہرحال اس خصوصی اجلاس کا حتمی ایجنڈا ابھی بھی واضح نہیں ہے۔ حزب اختلاف کے مختلف قائدین نے کہا کہ اجلاس کے ایجنڈے کو اس طرح پوشیدہ رکھنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت پارلیمنٹ کے سلسلے میں عدم اعتماد کا مظاہرہ کر رہی ہے جو کسی بھی پارلیمانی جمہوری نظام کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے اس خصوصی اجلاس کے بطن سے جو کچھ بھی نمودار ہوگا اگلے تین چار دنوں میں اس کا پتہ چل جائے گا۔ لیکن بی جے پی کے طرز عمل سے یہ بات بہت واضح ہو کر سامنے آرہی ہے کہ اس کا اصل ہدف اگلے لوک سبھا انتخابات ہیں جسے وہ ہر قیمت پر جیتنا چاہتی ہے۔ ایک ملک ایک انتخاب، الیکشن کمیشن کی تنظیم جدید اور یکساں سول کوڈ کا نفاذ جیسے منصوبے اسی مقصد کے حصول کی ایک کڑی سمجھے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ انتخابات میں کامیابی کے لیے ہندو مسلم منافرت اور تقسیم کو بی جے پی اپنا ترپ کا پتہ سمجھتی ہے۔
اس مرتبہ بی جے پی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو اپنے اہم ترین ایجنڈے کے طور پر پیش کر رہی ہے، حالاں کہ یہ موضوع ہمیشہ سے بی جے پی کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے لیکن سابق میں اس کو وہ اہمیت حاصل نہیں رہی بلکہ اس کے ابتدائی انتخابی منشور میں تو یہ شامل بھی نہیں تھا۔ لیکن 1985 سے 1998 کے انتخابات کے منشوروں میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو بہت ہی وضاحت اور شدت کے ساتھ شامل رکھا گیا۔ لیکن جب بی جے پی، این ڈی اے اتحاد کے ذریعے اقتدار میں پہنچی تو اس نے ان موضوعات کو عارضی طور پر چھوڑ دیا تھا۔ 1999 سے 2004 تک بی جے پی کے انتخابی منشور میں یکساں سول کوڈ کا ذکر نہیں تھا۔ 2009 میں اس نے دوبارہ اس مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر دیا اور اس وقت سے اب تک وہ اس پر مسلسل قائم ہے۔ نریندر مودی کی دوسری معیاد کے آخری حصے میں اس پر باقاعدہ کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ حالاں کہ گزشتہ دنوں شمال مشرقی ہندوستان کی ریاست میزورم میں میزو نیشنل فرنٹ نے، جو بی جے پی کی حلیف پارٹی ہے، یکساں سول کوڈ کی باضابطہ مخالفت کرتے ہوئے ریاستی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یکساں سول کوڈ نسلی اقلیتوں کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسی سال فروری میں میزورم کی ریاستی اسمبلی نے متفقہ طور پر یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے خلاف قرارداد بھی منظور کی تھی۔ اس کے علاوہ ناگالینڈ اسمبلی میں بھی اس کے خلاف قرارداد منظور کی جا چکی ہے، جہاں بی جے پی کی حلیف جماعت کی حکومت ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کے ارکان اسمبلی بھی یکساں سول کوڈ کے خلاف ان قراردادوں کی منظوری میں شامل رہے۔ جب کہ کیرالا اسمبلی پہلے ہی اس قانون کی کھل کر مخالفت کر چکی ہے۔ ان سب کے باوجود بی جے پی کی مرکزی حکومت اس بات پر مصر ہے کہ وہ ملک میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرکے رہے گی، جب کہ خود اس کی حلیف سیاسی جماعتوں کا یہ کہنا ہے کہ اس قانون سے ملک کے سماجی تانے بانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ میزورم اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے خلاف جو قرارداد منظور کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ یکساں سول کوڈ ملک کے اتحاد کو پارہ پارہ کردے گا۔ جب کہ کیرالا اسمبلی نے اس کے خلاف جو قرارداد منظور کی ہے اس میں کہا گیا کہ یکساں سول کوڈ سے ملک کا سیکولر کردار متاثر ہوگا۔ اس کے علاوہ کیرالا کی اسمبلی میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ مرکز نے ملک کے وفاقی ڈھانچے کو نظر انداز کرتے ہوئے ریاستوں سے مشاورت کے بغیر ہی اس پر یکطرفہ فیصلہ کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرکز کی جانب سے اس طرح کا آمرانہ طرز عمل مرکز اور ریاستوں کے درمیان آئینی رشتے کو کمزور کرے گا جس کے نتیجے میں مزید کئی مسائل اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ اس پورے معاملے میں بی جے پی اور مین اسٹریم میڈیا کی جانب سے عوام کو یہ فریب دیا جا رہا ہے کہ ملک کے سارے لوگ یکساں سول کوڈ کے حق میں ہیں اور صرف مسلمان ہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ملک کے کئی طبقات اور پوری کی پوری ریاستوں نے اس کے خلاف قراردادیں منظور کرلی ہیں۔ دراصل بی جے پی اقتدار کے نشے اور اقتدار کے حصول کی ہوس میں اس مسئلے کو بھی ہندو مسلم رنگ دینے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ ملک کے عوام کو بی جے پی کے اس فریب سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔