اداریہ

بیک وقت نہیں، آزاد اور شفاف انتخابات کی ضرورت

جب سے بی جے پی نے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی ہے،  کسی نہ کسی عنوان سے ملک کے علاقائی، لسانی اور تہذیبی تنوع کو ختم کرنے اور یہاں کے وقافی ڈھانچے کو کمزور کرنے کی مسلسل کوشش کرتی رہی ہے۔کبھی ہندی زبان کو سارے بھارتیوں کے لیے لازمی بنانے کا شوشہ  چھوڑاگیا ، کبھی جی ایس ٹی کے نام پر ‘ایک ملک ایک ٹیکس’  کا نظام نافذ کیا گیا اور کبھی یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی بات پیش کی گئی۔اب اس نوعیت کا تازہ ترین شاہ کار "ایک ملک ایک انتخاب”کی تجویز کو روبہ عمل لانے کی کوشش ہے۔یکم ستمبر کے روز پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے بتایا کہ حکومت نے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں   ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو "ایک ملک ایک انتخاب” کے امکانات کا جائزہ لے گی جس کے تحت لوک سبھا اورتمام ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات متوازی طور پر بیک وقت منعقد کیے جاسکیں۔
یہ بات واضح رہے کہ آزادی کے بعد ہونے والے کچھ عام انتخابات  اسی طریقے سے  انجام پائے اور یہ روایت 1967  تک جاری رہی ۔لیکن ایک وسیع اور متنوع مسائل کے حامل اور پارلیمانی طرز حکومت والے  ملک میں اس طرح کے سلسلے کا جاری رہناممکن نہیں تھا۔ اسی وجہ سے آئین میں بھی اس کو لازم نہیں کیا گیا۔
لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت اور متوازی طور پر منعقد کرنے کا یہ خیال نیا نہیں ہے۔ اس طرح کی تجویز اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر زیر بحث آچکی ہے۔  بی جے پی کی موجودہ حکومت کے دوران بھی اس پر غور و فکر کے لیے اب تک تین الگ الگ کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی ہیں۔خود وزیر اعظم نے 2019  میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد کئی بار اپنی تقریروں میں اس خیال کونہایت ہی زور و شور سے  پیش کیا۔مذکورہ بالا تینوں کمیٹیوں کی سفارشات بھی  حکومت کے پاس محفوظ ہیں ، جن میں متوازی انتخابات کے مثبت و منفی پہلووں ، اس نظام کے فوائد ، اس کے نفاذ میں پیش آنے والے عملی مسائل ا ور اس طریقہ کار پر عمل آوری کے لیے درکار آئینی ترمیمات کو پیش کیا گیاتھا۔ حکومت نے ان تینوں کمیٹیوں کی سفارشات پر کوئی فیصلہ نہیں لیا اوراب "ایک ملک ایک انتخاب” کے موضوع پر ایک چوتھی کمیٹی تشکیل دے دی۔
یہ بات درست ہے کہ  ہمارے موجودہ انتخابی نظام اور اس کے الگ الگ نظام الاوقات کی وجہ سے حکومتوں اور عوام کو  کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔باربار کے انتخابات کی وجہ سے مرکزی حکومت کے کام کاج  میں رکاوٹ آتی ہے، پالیسیوں اور اسکیموں کے نفاذ میں خلل واقع ہوتا ہے، انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کی وجہ سے مختلف مسائل پر فیصلے لینے میں مشکل ہوتی ہے۔دیکھا یہ جارہا ہے کہ  اس طرح کے انتخابی نظام  میں انتخابی گہماگہمی  صرف ان ریاستوں تک محدود نہیں رہتی جہاں انتخابات ہورہے ہوں بلکہ وزیر اعظم  اور ارکان پارلیمنٹ سمیت مرکزی قیادت کا ایک بڑا حصہ بھی اپنے کام کاج چھوڑ کراس عمل میں مصروف ہوجاتا ہے۔ انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ تورہتا ہے لیکن مرکزی حکومت پر ان ریاستی انتخابات کو کسی بھی طرح جیتنے کا دباو رہتا ہے۔ ایسی صورت حال میں مرکزی حکومت اپنے اصل کاموں پر توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتی۔اس کے علاوہ  اس انتخابی عمل میں مالی وسائل بھی بہت زیادہ صرف ہوتے ہیں اور ملک کے خزانے پر بھاری بوجھ پڑتا ہے۔  ویسے ایک خیال یہ  بھی ہے کہ انتخابات کے لیے اس وقت انتخابات کا جو بنیادی ڈھانچہ اور سہولتیں (یعنی ای وی ایم  اور انتخابی عملہ وغیرہ)  ملک میں موجود ہیں وہ بیک وقت لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے لیے ناکافی ہیں۔ "ایک ملک ایک انتخاب” کے نظام کو نافذ کرنا ہوتو اس کے لیے موجودہ  بنیادی ڈھانچے اور سہولتوں میں بہت زیادہ اضافہ کی ضرورت ہے جس کے لیےاندازاً پچاس ہزار کروڑ روپے کا صرف ہوگا۔
یقیناً یہ سارے حقیقی مسائل ہیں ان پر قابو پانا  چاہیے لیکن اس  کے لیے آئین میں ترمیم کرکے پورے انتخابی نظام کو تہہ و بالا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ اس طرح انتخابات کے اوقات کا تنوع کسی بے ضابطگی کی علامت نہیں بلکہ  کسی وقافی اور پارلیمانی نظام حکومت کے حامل  ملک کا لازمی تقاضہ ہے۔ایک ملک ایک انتخاب کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ملک کا پیسہ بچے گا لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ لوک سبھا انتخابات کے موضوعات، اس کے مزاج  اور اس کی مہم سے ریاستی انتخابات  متاثر ہوں گےجو ایک وفاقی ڈھانچے والے ملک کا بہت بڑا نقصان ہے۔
دراصل "ایک ملک ایک انتخاب” کا یہ طریقہ بی جے پی کو اس لیے پسندہے کہ اولاً یہ اس کے بنیادی نظریے کے مطابق ہے ۔ بھارت کا تنوع اور وفاقی ڈھانچہ اس کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنتاہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملکی انتخابات میں وہ قوم پرستی، قومی وقار اور ملکی سلامتی جیسے موضوعات پر خوشنما نعروں اور پرفریب تقریروں کے ذریعے حقیقی اور مقامی مسائل سے لوگوں کا ذہن بھٹکاکر انتخابات میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ جب کہ الگ الگ انتخابات ہونے کی صورت میں اسے یہ موقع حاصل نہیں رہتا۔
موجودہ انتخابی طریقہ میں اور بھی بہت سنگین مسائل ہیں ۔ انتخابی نظام میں کافی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ مسئلے کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ ملک کے انتخابات کو بہت آسان اور منصفانہ بنایا جائے۔منصفانہ اس معنی میں کہ انتخابات کے موقع پر الیکشن کمیشن کے ضوابط سختی کے ساتھ نافذ ہوں۔ برسراقتدار گروہ کو اس کے اقتدار پر رہنے کا فائدہ نہ ملے، مرکزی حکومت ریاستی انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنے اقتدار کی قوت کا استعمال نہ کرپائے۔ اس کے لیے رائے دہی کا دورانیہ بھی کم کیا جاسکتا ہے ۔ اترپردیش جیسی ریاست میں انتخابات سات مرحلوں میں اور ایک مہینے تک جاری رہتے ہیں یہ خود ایک مضحکہ خیز صورت حال ہے۔ الیکشن کمیشن سے اس بات کا مطالبہ کرنا چاہیے کہ انتخابات کے لیے کم سے کم وقت لگے۔آسان اس معنی میں کہ انتخابات کم خرچ میں ہوں۔ انتخابات میں دولت کے بے تحاشا استعمال نے اس میں حصہ لینا عام انسانوں کے لیے ناممکن بنادیا ہے۔اس پر بھی سختی کے ساتھ روک لگائی جائے۔انتخابی نظام کی اصل اور بنیادی خرابیوں کی اصلاح کے بجائے اس میں اپنی پسند اور اپنی ضرورت کے مطابق تبدیلیاں ملک کے لیے کبھی بھی مفید ثابت نہیں ہوسکتیں۔