گزشتہ ایک ہفتے سے ملک کے طول و عرض میں چاند کی تسخیر کا جشن منایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم سے لے کر ایک مزدور تک سارے لوگ اس بات پر خوشی منا رہے ہیں کہ ہمارے ملک نے وہ کام کیا ہے جو آج تک کوئی اور ملک نہیں کر سکا۔ یقیناً اسرو کے سائنس داں اس اہم کامیابی کے لیے قابل مبارکباد ہیں۔ اس کائنات کے خالق نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور ساری کائنات کو اس کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ کائنات کے سربستہ رازوں تک رسائی اور اس کے مختلف سیاروں اور ستاروں کی تسخیر محض ایک دوسرے پر اپنی بڑائی و برتری جتانے کے لیے نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کامیابی کو انسانوں کی فلاح و بہتری کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ کیوں کہ انسان ہی اس کائنات کا اصل جوہر ہے اس لیے سائنس کی ہر ترقی کا مرکز و محور بھی انسانوں کے لیے خیر و بھلائی کی تلاش ہی ہونا چاہیے۔
ملک عزیز میں اس عظیم کارنامے پر جشن کا ماحول جاری ہی تھا کہ اس دوران ایسی کئی افسوس ناک اور درد ناک خبریں مختلف اخباروں اور نیوز چینلوں کی زینت بنتی رہیں جنہوں نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا واقعی ہمارا ملک ترقی کے راستے پر ہی گامزن ہے یا یہ دو مخالف سمتوں میں سفر کر رہا ہے؟ مظفر نگر میں ایک خاتون ٹیچر نے ایک معصوم طالب علم کو محض اس لیے پوری جماعت میں عتاب اور تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ بچہ مسلمان تھا۔ اس ٹیچر نے اس مسلم بچے کے ساتھ نفرت کے اظہار کا جو طریقہ اختیار کیا وہ اور بھی گھناونا اور غیر انسانی تھا۔
یہ خبر ابھی تازہ ہی تھی کہ مدھیہ پردیش سے ایک اور خبر نے دل و دماغ کو دہلا دیا۔ گزشتہ جمعرات کو روز مدھیہ پردیش کے ضلع ساگر میں ایک اٹھارہ سالہ دلت نوجوان کو اسی گاوں کے نام نہاد اعلیٰ ذات کے لوگوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا اور اس کی ماں کو برہنہ کر دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ دلت لڑکے کی بہن نے 2019ء میں گاوں کے کچھ اعلیٰ ذات کے لوگوں کے خلاف جنسی ہراسانی کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ وہ اس مقدمے سے دست برداری کے لیے ان پر دباو ڈال رہے تھے۔ دست برداری سے انکار پر ان لوگوں نے لڑکی کی ماں اور بھائی کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ ماں کو برہنہ کر دیا اور نوجوان بھائی کو اس قدر مارا کہ اس کی جان چلی گئی۔
دلتوں پر ظلم و ستم کا یہ واقعہ کوئی کبھی کبھار ہونے والا معاملہ نہیں ہے۔ صرف پچھلے ایک دو ماہ کے دوران ہی ایسے کئی واقعات خبروں میں آچکے ہیں۔
25؍ اگسٹ ہی کو مہاراشٹرا کے ضلع احمد نگر میں اعلیٰ ذات کے چھ افراد پر مشتمل ایک گروپ نے چار دلت نوجوانوں کو پکڑا، ان کے کپڑے اتارے اور انہیں درختوں سے الٹا لٹکا کر لاٹھیوں سے پیٹا۔ ان پر یہ شبہ تھا کہ انہوں نے ان اعلیٰ ذات کے لوگوں کے کبوتر چرائے تھے۔ ان ظالموں میں سے ایک نے اس واقعہ کا ویڈیو بھی بنایا اور اسے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔
ماہ جون کے دوران مہاراشٹرا کے ضلع ناندیڑ کے ایک گاوں میں اکشے بھالے راو نامی نوجوان اور اس کے بھائی پر اعلیٰ ذات کے افراد پر مشتمل ایک گروہ نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے حملہ کر دیا۔ یہ لوگ اپریل کے مہینے میں ان نوجوانوں کی جانب سے بھیم جینتی منانے پر بہت غصے میں تھے۔ اس دوران حملہ آوروں نے ان دلت نوجوانوں سے پوچھا کہ تم نے بھیم جینتی منانے کی ہمت کیسے کی؟ اس حملے میں اکشے بھالے راو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
ایسے ہی اور بھی کئی واقعات راجستھان، اتر پردیش، مہاراشٹرا اور ملک کے مختلف حصوں میں مسلسل پیش آ رہے ہیں اور کچھ عرصے سے ان واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ان تمام واقعات کے بعد پولیس نے جرم کا ارتکاب کرنے والوں پر مقدمات درج کیے اور بعض واقعات میں مجرموں کو گرفتار بھی کیا، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات ہوتے کیوں ہیں؟ اور اب تو ان میں مسلسل تیزی آتی جا رہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان دنوں مرکزی و ریاستی حکومتوں نے جو طرز عمل اختیار کیا ہے، وہ نہ صرف ان واقعات کو روکنے میں ناکام ہے بلکہ ان میں مزید اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔
لاکھوں میل دور واقع چاند کو چھونے کی آرزو اور اپنے اطراف میں رہنے والے انسانوں کے ساتھ نفرت جیسے متضاد رویوں سے ہمارا ملک ترقی کے راستے پر کبھی بھی گامزن نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اپنی سمت سفر اور سوچ و فکر کو صحیح رخ دینے کی ضرورت ہے۔ اہل سیاست سے اس معاملے میں کسی مثبت اقدام کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ ان کا اصل ہدف شہریوں کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ اپنے اقتدار کی بقا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کام ملک میں رہنے والے عام انسانوں کو کرنا چاہیے۔ اہل ملک کو چاہیے کہ وہ جہاں ہمارے سائنس دانوں کی اس کامیابی پر خوشی منائیں وہیں ملک عزیز کے مختلف حصوں میں پیش آنے والے ان غیر انسانی واقعات کی پر زور مخالفت و مذمت بھی کریں اور ہر سطح پر انہیں روکنے کی جان توڑ کوشش بھی کریں۔
گذشتہ اسٹوری