اداریہ

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

ملک عزیز میں مختلف طبقات کے درمیان بڑھتی ہوئی نفرت کو ملک کی ایک بڑی آبادی تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ یہاں فروغ دی جانے والی نفرت کی فضا اور فرقہ ورانہ صورت حال سے پریشان ہیں۔وہ بھارت کو اس طرح کا ملک نہیں بننے دینا چاہتے ہیں جہاں لوگ ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھیں یاایک دوسرے سے نفرت کریں بلکہ وہ چاہتے کہ ملک میں بسنے والے انسان باہمی محبت اور ہم آہنگی کے ساتھ پرامن انداز سے زندگی گزاریں۔ان کے خیال میں موجودہ ملک میں پھیلائی جانے والی نفرت انگیز فضا اور منی پور ، میوات و جے پور ایکسپریس کے دردانگیز واقعات کے درمیان دو مثبت خبروں نے اس امید کو زندہ کیا ہے کہ ملک میں لوگ موجودہ صورت حال اورنفرت اور دشمنی کی اس فضا کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ بنگلور ملک میں تجارتی انتظامیہ کی تعلیم و تربیت کا ایک مشہور ادارہ ہے۔ یہاں سے تعلیم حاصل کرنا ملک کے بیشتر نوجوانوں کا خواب ہوتا ہے۔یوں سمجھا جاتا ہے کہ اس ادارے میں داخلہ ہی اس کے روشن معاشی مستقبل کی ضمانت ہے۔یہاں کے فارغین ملک کی بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کی انتظامی قیادت پر فائز ہوتے ہیں۔گزشتہ دنوں اس باوقار تعلیمی ادارے کے 17 اساتذہ نے نجی حیثیت میں ایک کھلا خط لکھ کرملک کے کارپوریٹس سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ جھوٹی خبروں کو پھیلانے اور نفرت کا پرچار کرنے والے نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا کو سرمایہ فراہم کرنابند کردیں ۔ان اساتذہ میں گیارہ برسرکار اور چھ سبکدوش پروفیسرس شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے مذکورہ خط میں بھارت کی کارپوریٹ دنیا کے قائدین کو ملک کی نازک داخلی صورت حال اور پرتشددتنازعات کے خطرےسے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نےاس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے پچھلے کچھ برسوں سے عوامی سطح پر ، سیاسی گفتگووں میں اور ٹی وی چینلوں و سوشل میڈیا پر اقلیتوں کے خلاف نفرت کا کھلے عام اظہار معمول بنتا جارہا ہے۔ اقلیتوں کو بدنام کرنا، ان کے سلسلے میں غلط زبان کا استعمال کرنا، ان کے خلاف منظم انداز سے نفرت اور تشدد کو پھیلانے کی کوششوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے حالیہ دنوں ہوئے فرقہ ورانہ فسادات کے موقع پر پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی بے عملی اور سابقہ فسادات اور غیر انسانی جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کی رہائی یا معافی پر بھی کافی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر یہی صورت حال جاری رہی تو ملک کا سماجی تانا بانااوریہاں کی معیشت دونوں تباہ و برباد ہوجائیں گے اور یہ ہمارے ملک کے لیے بہت بڑا خسارہ ہوگا۔انہوں نے توجہ دلائی کہ بھارت کے کارپورٹ قائدین کو اس صورت حال کی تبدیلی کے لیے اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ کارپوریٹ کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ اس نفرت کے کاروبار کوسرمایہ فراہم کرنا اور ان کو مالی تعاون کرنا بند کردیں۔کارپوریٹ کمپنیوں کے قائدین کے نام ملک کے ایک باوقار تعلیمی ادارے کے اساتذہ کا یہ کھلا خط اس بات کا غماز ہے کہ ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس صورت حال سے ناخوش ہیں وہ فضا کو بدلنا چاہتے ہیں۔
دوسری خبر ایک غیر سرکاری سماجی تنظیم کی جانب سے چلائی جانے والی مہم کے متعلق ہے ۔ اس مہم کا عنوان ‘میرے گھر آکر تو دیکھو ‘ہے۔ اس مہم کے دوران اگلے کچھ دنوں کے دوران پانچ لاکھ خاندانوں کو اس بات کے لیے تیار کیا جائے گا کہ وہ اپنے سے مختلف مذہب ، زبان یا فرقے کے لوگوں کے گھروں کو جائیں اور ان کے ساتھ کھاناکھائیں ، چائے یا پانی پئیں اور مختلف عمومی موضوعات پر بات چیت کریں۔ مہم کا مقصد مختلف فرقوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔ملک میں نفرت پھیلانے والے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ملک کے مختلف فرقوں کے درمیان دوریوں میں اضافہ ہو، ان کے درمیان شکوک و شبہات کو فروغ ملے، وہ ایک دوسرے کے مذہب اور ان کی تہذیب و ثقافت سے اجنبی رہیں تاکہ مفاد پرست سیاست دان آسانی کے ساتھ ان کےدرمیان دشمنی کے بیج بو سکیں۔اس کے برخلاف اگرملک کے باشندے ایک دوسرے سے قریب ہوں گے تو وہ ان کی مذہبی تعلیمات، ان کی روایات ، ان کے رہن سہن اور ان کے مسائل سے واقف ہوں گے اور ان کے درمیان پھیلائی جانے والی غلط فہمیاں دور ہوں گی۔گرچہ اس مہم کا دائرہ اس نفرتی مہم کے مقابلے میں بہت مختصر ہے ، لیکن مہم میں حصہ لینے والے عام افراد کے تاثرات سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ ملک میں نفرت اور دشمنی کے اس ماحول سے بے زار ہونے لگے ہیں۔
یقیناً مذکورہ بالا دونوں کاموں کا دائرہ عمل اور اس کے اثرات نفرت پھیلانے کے لیے کی جانے والی مہم کے مقابلے میں بہت کم ہیں، لیکن یہ شروعات بہت ہی امید افزا ہے۔ یقیناًچراغ سے چراغ جلتے ہیں اور یہ روشنی اور بھی پھیلے گی ۔ملک کے شہریوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو لوگ ملک میں بسنے والے انسانوں کے درمیان نفرت پھیلارہےہیں وہ بھارت کو تہذیبی خودکشی کی طرف دھکیل رہےہیں۔اور ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ تہذیبیں بیرونی حملوں سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ تہذیبی خود کشی کی وجہ سے مٹ جاتی ہیں۔ جو لوگ ملک کو اس تہذیبی خود کشی کی طرف لے جارہے ہیں وہ کسی بھی صورت میں ملک کے بہی خواہ نہیں ہوسکتے بلکہ وہ ملک کے دشمن ہیں اس کے برعکس جو لوگ اس نفرت کو ختم کرنے کی جو بھی کوشش کررہےہیں وہی اس ملک سے سچی محبت کرنے والے ہیں۔ہندووں ، مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس طرح کی کوششوں کو ہر سطح پر فروغ دیں اور نفرت کی مہم کو ناکام کریں۔