اداریہ

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں15 اگست 2023ء کو ہمارے ملک نے اپنا 76واں یوم آزادی بڑے ہی تزک و احتشام سے منایا۔ وزیر اعظم نے تمام شہریوں سے اپیل کی تھی کہ وہ 13 اگسٹ ہی سے اپنے گھروں پر ترنگا لہرائیں اور ترنگے کے ساتھ اپنی تصویریں آن لائن شئیر کرکے ملک کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کریں۔
یقیناً ہر قوم اور ہر فرد کی زندگی میں آزادی کو بہت اہم مقام حاصل ہے۔ آزادی انسان کے لیے ایک بڑی نعمت ہے اور یہ انسان کا فطری جذبہ ہے۔ یہ جذبہ انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ انسان اور انسانی گروہوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی کے غلام نہ ہوں، ان پر کسی اور انسان یا انسانی گروہوں کا حکم نہ چلے۔ وہ اپنے معاملات زندگی اپنی مرضی سے طے کریں۔ چنانچہ افراد اور انسانوں کے گروہ اپنی اس آزادی کے لیے بالعموم بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ الا یہ کہ مسلسل غلامی نے ان کی فطرت ہی کو مسخ کردیا ہو اور وہ غلامی کے عادی ہو چکے ہوں۔ حریت فکر و عمل، آزادی ضمیر و اظہار خیال، افکار و خیالات کے تبادلے اور مختلف افکار و نظریات کے قبول و رد کی آزادی انسان کو احسن تقویم کے مقام پر پہنچاتی ہے اور اگر انسان کو یہ آزادی حاصل نہ ہو تو وہ محض اپنے آقاوں کے اشاروں پر حرکت کرنے والا چوپایہ بن کر رہ جاتا ہے۔
انسانوں میں آزادی کی اس شدید خواہش کے باوجود تاریخ انسانی کے ہر دور میں مختلف افراد نے یا اقوام نے دوسرے افراد یا دوسری اقوام کی آزادی کو سلب کرنے کا کام کیا ہے۔ کبھی افراد نے طاقت اور فریب کے بل پر مطلق العنان حاکم بن کر انسانوں کی آزادی ختم کی تو کبھی قوموں نے اپنی نسلی برتری، علمی تفوق اور ٹکنالوجی کے بل پر لاکھوں انسانوں کو مسلسل غلام بنائے رکھا۔ طاقت کے زور پر انسانوں کو غلام بنانا اور ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا یہ عمل قدیم زمانے سے آج تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ انسانوں کی آمریت اور مطلق العنایت کے اسلوب اور انداز تبدیل ہوئے لیکن اس کی خو بو آج بھی انسانی سماج میں اسی شان پائی جاتی ہے۔ آمریت یا مطلق العنانیت انسانوں سے ان کی عقل و خرد اور فکری و تخلیقی صلاحیت چھین لیتی ہے۔ دنیا میں جتنی بھی علمی ترقی اور دریافتیں نظر آتی ہیں وہ آزاد انسانوں ہی کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔ جسمانی غلامی انسان کو ذہنی غلامی کا بھی شکار بنا دیتی ہے، اور جو قوم ذہنی غلامی میں مبتلا ہو جاتی ہے وہ کبھی کوئی تعمیری کام انجام دینے کے قابل نہیں رہتی۔
صنعتی انقلاب کے بعد یورپی اقوام نے دنیا کے مختلف ممالک پر سیاسی تسلط قائم کیا اور وہاں جبراً اپنی تعلیم، تہذیب اور افکار مسلط کیے۔ بھارت بھی تین سو برس تک انگریزوں کی غلامی کا شکار رہا۔ اس دوران یہاں کے باشندے وقفے وقفے سے انگریزوں کی غلامی کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ ٹیپو سلطان سے لے کر گاندھی جی، پنڈت نہرو، حسرت موہانی اور مولانا آزاد تک مجاہدین آزادی کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے ملک کی آزادی کے لیے بے شمار قربانیاں دیں اور اسے انگریزوں کی سیاسی غلامی سے آزاد کروا کے دم لیا۔ ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے مجاہدین نے آزادی کے بعد جس بھارت کا خواب دیکھا تھا وہ ابھی تک تشنہ تعبیر ہے۔ ملک کے معماروں نے محض انگریزوں سے آزادی ہی نہیں چاہی بلکہ انہوں نے یہاں بسنے والے مختلف تہذیبوں کے علم برداروں کے درمیان باہمی اتحاد، سماجی انصاف اور جمہوریت کو اس آزاد ملک کا ہدف قرار دیا۔ ان اولین مجاہدین آزادی نے ان مثالی تصورات کے تعین کے ساتھ ساتھ ان کے حصول کے لیے درکار ادارے اور طریقہائے کار دونوں طے کر دیے تھے۔ یہ بات بھی طے کردی گئی تھی کہ اس مثالی سماج کی منزل کا حصول ایک سماجی و معاشی انقلاب کے ذریعے ہو اور جس کے لیے آئینی و جمہوری اداروں کا استعمال کرتے ہوئے سارے لوگوں کو ساتھ لے کر جدوجہد کی جائے۔ ان کا خیال تھا کہ اتحاد، سماجی انقلاب اور جمہوریت دراصل ایک اٹوٹ جال کے تانے بانے ہیں اور یہ تینوں باہم ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ ان میں سے کسی بھی ہدف کو نہ تو ترک کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کے بغیر ملک کی آزادی کا مقصد پورا ہو سکتا ہے۔
آج ہمارا ملک اپنی اس آزادی کے 76 برس پورے کر چکا ہے اور اس دوران اس نے بے شمار میدانوں میں ترقی کے جھنڈے بھی گاڑے ہیں۔ سائنس و ٹکنالوجی میں ملک کی ترقی قابل تحسین ہے، طب و میڈیکل سائنس میں ہمارا ملک دنیا کی قیادت کرنے کے لیے پرتول رہا ہے۔ یہ سب ان بنیاد گزاروں کی محنتوں کا پھل ہے جو آج ہمیں نظر آ رہا ہے۔ لیکن اس ترقی کے پہلو بہ پہلو یہ صورت حال بھی کافی تشویش ناک ہے کہ ہمارا ملک اپنی آزادی کے تین بنیادی اہداف یعنی اتحاد، سماجی انصاف اور جمہوریت سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کچھ عناصر جن کا ملک کی آزادی میں درحقیقت کوئی حصہ نہیں تھا وہ ملک میں بسنے والے مختلف طبقات کے درمیان نفرت پیدا کرکے ملک میں پائی جانے والی یکجہتی اور اتحاد ہی کو ختم کرنے کے درپے ہوگئے ہیں۔ مختلف حیلوں و بہانوں سے جمہوریت اور جمہوری فضا کو، جو آزادی کا لازمی تقاضا ہے، ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ معاشی استحصال نے غریبوں کے لیے آزادی کی معنویت ہی پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ آج بھی ہزاروں برسوں سے چلا آرہا انسانوں کی تفریق پر مبنی ظالمانہ سماجی نظام اپنی بنیادوں پر استوار ہے جس نے کروڑوں انسانوں کو جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگر ملک اسی رخ پر آگے بڑھتا رہا تو اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ جن اہداف کو مقصود بنا کر ملک آزاد ہوا تھا اس سے ملک کی اکثریت محروم ہو جائے گی اور ملک کے وسائل پر ایک چھوٹے سے طبقے کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی۔ یہی وہ مرحلہ ہو گا جب ملک ترقی کے بجائے زوال کے راستے پر چل پڑے گا۔ ملک کے عوام کو اس سے چوکنا رہنا چاہیے۔
مسلمان اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں، اس ملک کے بنانے اور سنوارنے میں انہوں نے ہر دور میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج بھی ان پر دہری نوعیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک تو اس ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ان کا یہ کام ہے کہ وہ ملک کو زوال سے بچانے کے لیے تمام انسانوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں۔ ان کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ یہاں اسلام کے نمائندے ہیں۔ اس حیثیت سے ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کے انسانوں کو آزادی کے اصل مفہوم سے آشنا کروائیں۔ اس موقع پر انہیں یہ بھی بتائیں کہ وہ جس دین کے ماننے والے ہیں اس میں آزادی کا تصور کتنا حقیقی جامع اور واضح ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں چاہیے کہ وہ ملک میں ہونے والے ظلم اور ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اگر ملک کے پندرہ کروڑ مسلمان یہاں کے مظلوم اور کمزور انسانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں تو یقین جانیے کہ تھوڑے ہی عرصے میں ملک سے ظلم و ستم کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ شرط یہ ہے کہ مسلمان اپنی اس ذمہ داری کو پہچانیں اور اسے ادا کرنے پر کمر بستہ ہوں۔