اداریہ

انتخابات 2019ء : ایک تحقیق اور اس پر ہنگامہ

گزشتہ ہفتے 2019ء کے عام انتخابات کے نتائج پر تحریر کردہ ایک تحقیقی مقالہ ملک کی حکم راں اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اور علمی حلقوں میں بحث کا موضوع بنا رہا۔ اس تحقیقی مقالے میں مقالہ نگار نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ 2019ء کے عام انتخابات کے دوران بی جے پی نے اپنی زیر اقتدار ریاستوں میں قریبی مقابلے والی نشستوں پر تفصیلی معلومات پر مبنی کنٹرول کی مدد سے انتخابی ہیر پھیر کی اور اس طرح غیر متناسب کامیابی حاصل کی ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں مقالہ نگار نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ تحقیق کے دوران اس بات کے بھی ثبوت ملے ہیں کہ ان ریاستوں میں فہرست رائے دہندگان سے مسلم ناموں کو جان بوجھ کر حذف کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ مقالہ دلی کی مشہور و معروف جامعہ اشوکا یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کے اسسٹنٹ پروفیسر سبھیہ ساچی داس نے تحریر کیا اور سوشل سائنس ریسرچ نیٹ ورک نامی جریدے میں اس کی اشاعت ہوئی ہے۔ ان کے مقالے کا عنوان Democratic Backsliding in the World’s Largest Democracy (دنیاکی سب سے بڑی جمہوریہ میں جمہوریت کا زوال) ہے۔
مقالہ نگار کے مطابق انہوں نے اپنے تحقیقی مقالے میں مختلف نوعیت کا جدید ڈیٹا اور اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے معیاری ماخذات کے ذریعے 1977ء سے 2019ء تک کے عام انتخابات اور 2019-2021 کے ریاستی انتخابات کے لیے امیدوار تک کی سطح کے اعداد و شمار تک رسائی حاصل کی ہے۔ مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ کانٹے کی ٹکر والے انتخابی حلقوں میں تفصیلی معلومات پر مبنی اس طرح کے کنٹرول کے ذریعے انتخاب کو اپنے حق میں کرنے کے لیے انتخابی ہیر پھیر کا آغاز رائے دہندگان کی فہرست کی تیاری سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ یہ انتخابی ہیر پھیر کا پہلا مرحلہ ہے جس میں متعین طور پر ان رائے دہندوں کے نام حذف کروائے جاتے ہیں جن کے متعلق یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں حکم راں جماعت کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اس مرحلے کو مقالہ نگار نے رجسٹریشن میں ہیرا پھیری قرار دیا ہے۔ انتخابی ہیرا پھیری کا دوسرا مرحلہ رائے دہی کے دوران انجام پاتا ہے جب پولنگ عملہ پوری حکمت عملی کے ساتھ درج شدہ رائے دہندوں میں سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں اور ان لوگوں رائے دہی سے محروم کرنے کی قصداً کوشش کی جاتی ہے، جن کے متعلق اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حکمراں جماعت کے حق میں نہیں ہیں۔ ان قریبی مقابلے والے حلقوں میں رائے شماری کے دوران بھی ہیر پھیر کا امکان رہتا ہے۔ یہ اس کا آخری مرحلہ ہے۔ مقالہ نگار نے اپنے ان دعووں کے لیے تفصیلی ڈیٹا اور ان کے تجزیے بھی پیش کیے ہیں۔ اگرچہ مقالہ نگار نے اس بات کا واضح طور پر اظہار کیا ہے کہ اس طرح کے کانٹے کی ٹکر والے جتنے حلقوں میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ہے ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے اور ان سے حکومت کی تشکیل پر کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوا، لیکن انہوں نے اعداد و شمار کے گہرے تجزیے سے یہ تشویش ناک نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر اس طرح کا انتخابی فریب یا ہیر پھیر کسی ایک حلقے میں بھی ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکم راں جماعتوں کی جانب سے اس طرح کا ہیر پھیر اور بھی بڑے پیمانے پر کیا جاسکتا ہے۔ مقالہ نگار کے خیال میں یہ رجحان ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور اس کے دور رس نتائج ملک کی جمہوریت پر پڑ سکتے ہیں۔
اس مقالے کے منظر عام پر آنے کے بعد اس پر حکم راں جماعت کی جانب سے اعتراضات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ یونیورسٹی نے فوری اس مقالے سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔ حکم راں جماعت کے مختلف قائدین نے اس پر سخت تنقید کی کہ ایک غیر مکمل تحقیق کی بنیاد پر کوئی فرد کیسے بھارت کے انتخابی نظام کو مشکوک بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر مقالہ نگار کو ٹرول کیا جانے لگا، ان پر حسب روایت لعن طعن شروع ہوگئی ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے مقالہ نگار کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن اور حکومت کو ان سوالات کا جواب دینا چاہیے جو اس مقالے میں اٹھائے گئے ہیں۔ دنیا کے علمی حلقوں میں اس بات پر شدید اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ہمارے ملک میں ایک سنجیدہ علمی تحقیق کو بھی برداشت کرنے کا مادہ باقی نہیں رہا۔ علمی طریقہ تو یہی ہے کہ اس مقالے میں اٹھائے گئے سوالات پر سنجیدہ مباحث ہوں، اگر نتائج تحقیق غلط ہوں تو ان کو علمی انداز سے مسترد کیا جانا چاہیے نہ کہ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا کر دیا جائے؟ اعلیٰ جامعات میں تحقیق و بحث کی آزادی، مختلف موضوعات پر کھل کر گفتگو ملک کے علمی اور تحقیقی معیار کو بلند کرتی ہے جبکہ ہمارے موجودہ حکم رانوں کو یہ بات قطعی پسند نہیں ہے۔ وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ لوگ اپنی عقل کو ان کے پاس گروی رکھ دیں اور وہی دیکھیں اور سنیں جو وہ دکھانا یا سنانا چاہتے ہیں، چاہے اس کی وجہ سے ملک کا علمی و تحقیقی معیار گر کر پاتال میں کیوں نہ پہنچ جائے۔
اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک کے لیے آزادنہ اور منصفانہ انتخابات جمہوریت کا بنیادی ستون ہوتے ہیں، اس کے باوجود دنیا کے مختلف ممالک میں ان انتخابات کی شفافیت کے متعلق شبہات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سروے سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ملک کی آبادی کے صرف دو تہائی حصے کو ہی انتخابات کروانے والے ادارے پر بھروسہ ہے۔ اگرچہ یہ تناسب دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن 2014ء کے بعد اس تناسب میں بھی کمی آتی جا رہی ہے۔ ملک میں جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے بنیادی جمہوری اداروں پر عوام کا اعتماد قائم رہے ورنہ اگر ملک کے اہم اداروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا تو پھر ملک کو انتشار سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ سبھیہ داس جیسے سنجیدہ محققین ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بلا جھجھک ایک تشویش ناک خطرے سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر توجہ دی جائے اور جمہوری نظام کو تباہ و برباد کرنے والے عناصر اور ان کی کوششوں سے ملک کو محفوظ رکھا جائے۔