اداریہ

منی پور میں تشدد کی سیاست اور سیاست کا تشدد

ملک کی شمال مشرقی ریاست منی پور زائد از دو ماہ سے بد ترین نسلی تشدد کی زد میں ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ابھی تک ایک سو ساٹھ سے زائد افراد قتل ہوئے ہیں اور ہزاروں لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر دو خواتین کے ساتھ کی گئی انتہائی شرم ناک غیر انسانی اور وحشیانہ حرکت والی ویڈیو نے ساری دنیا میں بھارت کو شرم سار کر دیا۔ مذکورہ ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد امریکہ، برطانیہ اور خود ملک کی سپریم کورٹ کی جانب سے جو شدید ردعمل سامنے آیا اس نے ملک کے وزیر اعظم کو بالآخر اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور کر دیا۔ حالاں کہ پچھلے اسی دنوں سے منی پور جل رہا تھا اور وزیر اعظم مودی دنیا بھر میں گھوم پھر کر اپنی امیج بنانے میں مصروف تھے۔ انسانی لاشوں اور لٹتی ہوئی عزتوں پر بھی سیاست کرنا کوئی ہمارے سیاست دانوں سے سیکھے۔ چنانچہ ایک طویل عرصے بعد جب وزیر اعظم نے منی پور کی کوکی خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر اپنی زبان کھولی تو اس میں بھی کانگریس کی زیر اقتدار ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ کا ذکر کر کے مذکورہ واقعے کی شدت کو کم کرنے اور اسے ملک میں ہونے والا معمول کا واقعہ قرار دینے کی بدترین کوشش کی۔ چوبیس جولائی کو پارلیمنٹ کے مانسون کے اجلاس کے تیسرے روز اپوزیشن نے منی پور کے واقعات پر مباحث کروانے اور وزیر اعظم کو اس پر اپنا بیان دینے کا پر زور مطالبہ کیا۔ مرکزی حکومت با دل نا خواستہ مباحث کے لیے تیار تو ہوئی لیکن وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آکر اس پر بیان دینے کے لیے تا حال تیار نہیں ہوئے۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں وزیر اعظم پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے لیکن یہ کیسی پارلیمانی جمہوریت ہے کہ جہاں پارلیمنٹ کو اپنے وزیر اعظم سے بات کرنے، ان سے سوال کرنے اور ان کا جواب سننے کا موقع تک میسر نہیں ہے؟ یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی ہے کہ بی جے پی کو نہ تو ملک کے جمہوری نظام اور اس کی روایات کا کوئی پاس و لحاظ ہے اور نہ اس کے اندر اخلاقی حس نام کی کوئی چیز موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر اس قدر مذمت کے باوجود نہ تو چیف منسٹر منی پور نے استعفی دیا نہ وزیر داخلہ مستعفی ہوئے اور نہ ہی وزیر اعظم ایوان میں اس پر گفتگو کے لیے راضی ہیں۔ حالاں کہ ملک و ریاست میں امن و قانون کی برقراری اور اقلیتوں کا تحفظ ان کی آئینی ذمہ داری ہے جس میں ناکامی کے بعد حکومت کو اقتدار پر برقرار رہنے کا کوئی اخلاقی و قانونی جواز باقی نہیں رہتا۔ یہ معاملہ اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب حکومت خود اس طرح کے واقعات میں ملوث ہوتی ہے یا جانب داری کا رویہ اختیار کرتی ہے۔ منی پور میں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے پاولین لال ہاوکِپ نے انڈیا ٹوڈے میں تحریر کردہ اپنے مضمون میں الزام لگایا کہ منی پور کا یہ تشدد چیف منسٹر بیرین سنگھ حکومت کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ حکومت کی ملی بھگت اور جانب داری کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ چیف منسٹر نے ایک خالص نسلی تنازعہ کو ڈرگ مافیا کے خلاف حکومت کی کارروائی قرار دینے کی کوشش کی۔ ملک میں فسادات اور اس نوعیت کے تشدد کی تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک جانب دار حکومت امن و امان کے لیے کس قدر خطر ناک ہوتی ہے، شاید منی پور کے حالیہ تشدد میں بھی یہی روایت دہرائی جا رہی ہے۔
منی پور کے نسلی تشدد اور یہاں ہونے والے واقعات نے ایک بار پھر ملکی سماج کا کریہہ چہرہ ساری دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔مخصوص سیاسی فکر کے حامل سیاست دانوں نے اپنے مفاد کے لیے مختلف طبقات کے درمیان اس قدر نفرت بھر دی ہے کہ انسانوں کا ہجوم پاگلوں کی بھیڑ میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ مجبور انسانوں اور خواتین کے خلاف وحشیانہ جرائم کا ارتکاب خود ایک غیر انسانی فعل ہے اس پر مستزاد یہ کہ لوگ اس جرم کو کیمرے میں قید کرنے اور اسے وائرل کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ پچھلے کئی برسوں سے ماب لنچنگ وغیرہ کے معاملوں میں یہی عمل دیکھنے میں آیا ہے۔
منی پور کے مذکورہ ویڈیو کے علاوہ اور بھی بہت سارے پہلو آہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں ایک پہلو میڈیا اور سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے سے متعلق بھی ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کا مذکورہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ایشیا کی ایک بڑی نیوز ایجنسی نے اپنے ٹیوٹر ہینڈل پر یہ جھوٹی خبر جاری کر دی کہ منی پور پولیس نے اس معاملے میں ایک مسلمان کو گرفتار کیا ہے۔ کچھ دیر بعد متعلقہ نیوز ایجنسی نے مذکورہ جھوٹی خبر پر مبنی ٹویٹ کو خاموشی سے حذف کر دیا۔ لیکن اتنی دیر میں نفرت پھیلانے والا سوشل میڈیائی بریگیڈ اپنا کام کر چکا تھا، خبر میں جیسے ہی ایک مسلمان کا نام نظر آیا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ جھوٹی خبر جنگل کی آگ سے بھی تیزی کے ساتھ دنیا بھر میں پھیل گئی۔ شدید اعتراض اور تنقید کے بعد ایجنسی نے اپنی غلطی تسلیم کر کے معذرت چاہی۔ بہر حال اس سرکاری نیوز ایجنسی نے دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ مذموم کوشش کی کہ معاملے کو کسی طرح مسلمانوں سے جوڑ کر اس کا رخ دوسری طرف موڑ دیا جائے لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ عوام کو حکومت اور میڈیا کی ان حرکتوں سے باخبر رہنا چاہیے اور ملک کے سچے خیر خواہ اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف شہریوں کو بھی اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ عوام سیاست دانوں اور میڈیا کے ان ہتھکنڈوں سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کرتے ہوئے انہیں اچھی طرح سبق بھی سکھائیں۔