ڈیڑھ برس قبل (24 فروری 2022 کو) یوکرین میں کی جانے والی روس کی مبینہ ’محدود فوجی کارروائی‘ کو ساری دنیا ’جنگ‘ ہی کہتی آرہی ہے، لیکن عقل اس بات کو سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ جنین کو فوجی بکتربند گاڑیوں سے روندنے اور ڈرون کے ذریعے تاراج کرنے والی اسرائیلی کارروائی کو ’جنگ‘ کہنے سے گریز کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس سے قبل روس اور یوکرین کے درمیان پہلی بار 20 فروری 2014 کو جنگ ہوئی تھی جس کے دوران کرائمیا اور جنوبی یوکرین کے کچھ حصوں کو روس نے اپنی سرحدوں میں شامل کر لیا تھا۔ اس لحاظ سے یوکرین پر روس کی اور فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت میں آخر فرق ہی کیا رہ گیا ہے؟
فلسطینی زمینات پر غاصبانہ قبضوں کا عمل، برطانوی سرپرستی میں شروع ہوا تھا جو اب امریکہ بہادر کی سرپرستی میں پوری شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔ سابقہ دو دہائیوں کے دوران اب تک کی سب سے بڑی تخریبی فوجی کارروائی کے لیے اسرائیل نے مغربی کنارہ کے مقبوضہ علاقوں میں سے ایک فلسطینی شہر جنین کو منتخب کیا جو پھلوں و سبزیوں والی زرخیز زمین ہے، جہاں پہلے ہی سے پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ غاصب افواج نے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران جنین کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ اس پر تازہ کارروائی کے بارے میں اسرائیل نے کہا کہ وہ ’کیمپ میں مبینہ دہشت گردوں کے تصفیہ‘ کے لیے ایک ’آپریشن ہوم اینڈ گراؤنڈ‘ چلا رہا ہے۔ تین جولائی کی کارروائی کے دوران انسانی بستیوں میں گھروں کو روندا گیا، سڑکوں کو ٹینکوں اور فوجی بلڈوزروں کے ذریعے اکھاڑ دیا گیا یہاں تک کہ ایمبولنس وغیرہ کو تک جانے کے لیے راستہ نہیں رہا۔ تقریبا ایک درجن فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد دو روزہ کارروائی کو روکنے کا اعلان ہوا لیکن تب تک راکٹوں، ہوائی حملوں اور گولیوں کی گھن گرج نے بڑی تعداد میں شہریوں کو بے گھر ڈالا تھا۔ کاروباری ٹھکانوں اور مکانات پر حملوں کے علاوہ گاڑیوں اور عمارتوں کی مسماری کے تباہ کن مناظر ایک بار پھر دنیا اپنی برہنہ آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ یہاں دو روزہ فوجی کارروائی کیا کم تھی کہ غزہ پر بھی فضائی حملہ کیا گیا۔ اس وحشیانہ کارروائی کے خلاف حماس یا مقامی فلسطینیوں کی ہلکی پھلکی مزاحمت میں اکا دکا اسرائیلی جانوں کی تلافی کی خبریں ہیں جو کہ روایتا غیر متناسب نقصان ہے۔ 15 نومبر 1988 کو پی ایل او کی فلسطینی قومی کونسل نے الجیریا میں یروشلم، مغربی کنارہ اور غزہ پٹی کے علاقوں میں آزاد اور خود مختار فلسطینی مملکت کا اعلان کیا تھا۔ تب سے اس بات پر رائے زنی جاری ہے کہ آیا اسرائیل کو ایک علیحدہ ملک کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے یا صرف فلسطین ہی کے وجود کو تسلیم کیا جا رہا ہے؟ دو ملکی حل ہو یا کوئی اور راستہ نکالا جائے اگر اس کے اصل باشندوں کے طور پر فلسطینیوں کی امنگوں اور آرزوؤں کا خیال نہیں رکھا جاتا تو اس خطے میں امن کا قیام ایک سراب بنا رہے گا اور جنگ و جدل یہاں کے باشندوں کا مقدر!
اسرائیل کی جنگی جرائم کی مذمت عرب لیگ، خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) اور او آئی سی جیسی اہم علاقائی تنظیموں نے حسب توقع کر ہی دی۔ مزید یورپی یونین کے ایک وفد نے جنین پناہ گزین کیمپ کے دورہ کے بعد (اتوار کو) کہا کہ اسرائیل نے اس بار بھی بین الاقوامی ضابطوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اقوام متحدہ نے جنین فوجی کارروائی کی مذمت کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔ جنگی جرائم کے ارتکاب کی ایک طویل داستان اسرائیل کے نام سے رقم ہو چکی ہے، جبکہ اس کے کان پر جوں تک رینگتی نظر نہیں آتی۔ عدالتی، عالمی مذاکرات اور باہم گفتگوؤں کے تمام راستے اختیار کر لینے کے باوجود فلسطینیوں کے لیے اپنے گھروں میں جا کر رہنا آج بھی ایک خواب ہے اور اب تو جنین کی وحشی کارروائی نے خوف اور بے امنی کے ماحول میں مزید ہولناکی پیدا کر دی ہے۔ مسلح گروہوں کی جانب سے مزاحمت کو ختم کرنے کی نیت سے اسرائیل نے تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جو تباہی انسانی بستیوں میں مچائی ہے کیا اس کے بعد اس خطے میں امن و سکون بحال ہونے کے امکانات کی توقع کی جا سکتی ہے؟
عالمی اداروں ناٹو، یو این وغیرہ نے اب تک مختلف بین الملکی تنازعات میں جو رویہ اپنایا ہے اسے یا تو دوغلے پن کا نام دیا جا سکتا ہے یا منافقت کا یا ظالم کے حق میں خاموش رہنے والے ریفری کا!
غیور اور خود دار فلسطینیوں کی ہمت کو اب تک کی بڑی سے بڑی کارروائی کمزور نہیں کر سکی لیکن عالم انسانیت کے جسم میں جو ناسور عربوں کے سینوں میں عالمی سازشوں کے نتیجے میں داخل کر دیا گیا تھا اس کے زخم کا رساؤ پوری انسانیت کو تب تک تکلیف دیتا رہے گا جب تک کہ حالات کو منصفانہ طور پر سدھارنے کے لیے ایماندارانہ اقدامات نہیں کیے جاتے، اس کے لیے لازم ہے کہ دنیا ظالم کا ہاتھ پکڑے اور مظلوم کے ساتھ کھڑی ہو۔ آج کی اس مصیبت کی گھڑی میں اس بات کے امکانات نظر تو نہیں آرہے ہیں لیکن کیا تاریخ نے کبھی ناانصافی اور امن کو ایک ساتھ چلتے ہوئے دیکھا ہے؟
گذشتہ اسٹوری