گزشتہ دنوں عین اس وقت جب کہ ہمارے وزیر اعظم ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے بھارت میں کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کا انکار کر رہے تھے، ملک کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں گزشتہ زائد از پچاس دنوں سے جاری نسلی تشدد اپنے عروج پر تھا۔
کہا جارہا ہے کہ یہ پچھلے نو برسوں میں وزیر اعظم مودی کی پہلی پریس کانفرنس تھی جس میں انہوں نے امریکی صدر کے ساتھ مشترکہ طور پر صحافیوں کو خطاب کیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم مودی سے صرف ایک سوال کیا گیا جو ملک میں مختلف اقلیتی طبقات کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ سے متعلق تھا۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت میں ذات پات یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، کیوں کہ ان کی حکومت ملک کے اس آئین کی پابند ہے جو جمہوریت کے اساسی قدروں کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت ہماری روح میں رچی بسی ہے، یہ ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جہاں انسانی قدریں اور انسانیت نہیں ہوتی وہاں نہ انسانی حقوق ہوتے ہیں اور نہ ہی جمہوریت ہوتی ہے، جب کہ ہم بھارت کے لوگ جمہوریت ہی میں جیتے ہیں اور جمہوریت میں کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
وزیر اعظم مودی جی نے حسب معمول جمہوریت، انسانیت، انسانی قدروں اور اقلیتوں کے انسانی حقوق کے متعلق نہایت ہی بلند بانگ دعوے کیے ہیں اور بڑی ہی پرکشش باتیں کہی ہیں، لیکن ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے حالیہ واقعات امریکہ میں دیے گئے اس بیان کے تضاد اور جھوٹ کو پوری طرح عیاں کرتے ہیں۔ دنیا مودی جی کے بیان اور ملک کی صورت حال دونوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ منی پور کا نسلی تشدد بدترین صورت اختیار کر چکا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو چکے ہیں۔ نجی اور سرکاری املاک کو بے دریغ آگ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ آتشیں ہتھیاروں کا کھلم کھلا استعمال جاری ہے۔ حکومت اور نظم و قانون پوری طرح چرمرا گیا ہے۔ حزب اختلاف منی پور کی حکومت ہی کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے اور ملک کے وزیر اعظم سے فوری اس معاملے میں مداخلت کرنے اور وزیر اعلیٰ کو برطرف کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے، اور وزیر اعظم صاحب ان سب حالات سے بے پروا پرتعیش دورہ امریکہ میں ‘سب چنگا ہے’ کے نعرے لگا کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔
ایک جانب منی پور کی یہ حالت ہے تو دوسری طرف بی جے پی کی زیر اقتدار ایک اور ریاست اتر اکھنڈ میں مسلمانوں کے خلاف مسلسل نفرت کا پرچار جاری ہے۔انہیں شہر چھوڑ دینے یا پھر سنگین نتائج کا سامنا کرنے کا الٹی میٹم دیا جا رہا ہے۔ باقاعدہ جلسوں اور میٹنگوں میں تقریریں کر کے ان کے قتل عام کی باتیں کی جاتی ہیں۔ مختلف مقامات پر خود وزیر اعظم مودی کی پارٹی کے بعض ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے مسلمانوں اور دلتوں کے معاشی و سماجی بائیکاٹ کی اپیلیں کی جاتی ہیں۔ لا اینڈ آرڈر کے نام پر مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو غیر قانونی طور پر بلڈوزروں سے منہدم کیا جاتا ہے۔ لو جہاد کی گھڑی ہوئی اصطلاح کا استعمال کرکے مسلمانوں کے خلاف قانون سازی کی جاتی ہے۔ انسانوں کو اپنے ضمیر کی آواز پر اپنے پسند کے عقیدے کو قبول کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے سے روکنے کے لیے قانون سازیاں کی جاتی ہیں۔ کیا یہی وہ جمہوریت ہے جس کا ڈھنڈورا مودی جی امریکہ میں پیٹ رہے ہیں؟ کیا آئین اور آئینی قدروں کی پابندی اسی طرح کی جاتی ہے، کیا یہی انسانیت اور انسانی قدریں ہیں جن کے متعلق اپنی پیٹھ ٹھونکی جاری ہے؟ حالاں کہ اسی دورے کے موقع پر جب وزیر اعظم مودی بھارت کی جمہوریت کی دہائی دے رہے تھے اور اقلتیوں کے خلاف کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کا انکار کر رہے تھے، ان کے قریبی دوست سابق صدر امریکہ بارک اوباما نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں مختلف اقلیتی طبقات کے حقوق کی حفاظت نہ ہو تو ملک کے مختلف فرقوں میں دوریاں اور تقسیم بڑھے گی اور یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ بارک اوباما اس سے قبل 2015 میں بھی ایسی ہی نصیحت کر چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ لچھے دار تقریروں، پرکشش نعروں اور دل فریب جملوں سے نہ تو جھوٹ چھپ سکتا ہے اور نہ ملک کی صورت حال دنیا کی نظروں سے چھپائی جا سکتی ہے۔ آئین، جمہوریت اور جمہوری قدریں بیرون ملک بیان دینے کے لیے نہیں ہیں بلکہ ملک کے طول و عرض میں جاری و ساری کرنے کے لیے ہیں۔ ملک کے لوگ ان تقریروں اور جملوں کی حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں اور صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بہت جلد اس کے سحر سے بھی اپنے آپ کو آزاد کرلیں گے۔
گذشتہ اسٹوری