اداریہ

عید قرباں کا پیغام

عید الاضحٰی کے موقع پر دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے حضور حاضر ہو کر نماز دوگانہ ادا کرنے کے بعد قربانی کے عظیم عمل کو انجام دیتے ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سنّت ہے جسے انہوں نے تقریبا ساڑھے چار ہزار سال قبل محض رضائے الٰہی کی خاطر اپنے بیٹے اسمٰعیل کی گردن پر چھری رکھ کر انجام دی تھی۔ یہ ایک ایسی آزمائش تھی کہ جس سے بڑی کسی آزمائش کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل (علیہم السلام) کے اس جذبہ قربانی کو قیامت تک آنے والے اہل ایمان کے لیے ایک عظیم عبادت بنا دیا ہے۔چنانچہ عید الاضحٰی کا بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ اگر دل میں ایمان ہے تو بندگی الہ کا جذبہ لازمی ہے اور بندگی کا مطلب اللہ کے آگے جزوی نہیں بلکہ کامل سپردگی ہے اور رضائے الہی کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی آزمائشوں سے بھرپور زندگی کے ذریعہ اہل ایمان کو ہر قسم کے حالات میں رضائے الٰہی کی خاطر صبر وثبات اور توکل و استقامت کے ساتھ نور توحید کے اتمام کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا درس دیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت حنیفیت، منیبیت، تحمل و بردباری، نرم دلی، رقت قلبی اور اپنی ذات میں ایک انجمن جیسی گراں قدر صفات سے متصف تھی۔ اگر قربانی کرتے وقت مسلمان ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کا عزم کرلیں تو دنیا بھر میں جگہ جگہ صالح معاشروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔اقطاع عالم میں کروڑوں مسلمان ہر سال قربانی کی اس عظیم عبادت کو انجام دیتے ہیں لیکن اگر قربانی کا یہ عمل اپنی اصل روح کے ساتھ انجام پاجائے تو دنیا ہی بدل جائے گی۔
درحقیقت قربانی ہی وہ جذبہ ہے جو انسان سے بڑے سے بڑا کام کروالیتا ہے اور دین حنیف کو اس وقت سب سے زیادہ جس جذبے کی ضرورت ہے وہ یہی قربانی کا جذبہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح ملت ابراہیمی میں بھی اگر یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو پھر وہ نہتے ہونے کے باوجود نمرود وقت کی بھڑکائی ہوئی آگ میں بے خطر کود پڑنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
قربانی کرتے وقت جو دعا پڑھی جاتی ہے اس کے الفاظ ہی میں عید قرباں کا پیغام پنہاں ہے: ’’ بے شک میری نماز اور قربانی، میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سرِ تسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوں‘‘
یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے بندہ اپنے رب سے کہتا ہے کہ درحقیقت میری جان اور میرا مال سب کچھ اللہ کا ہے اور وقت آنے پر میں اپنی ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہوں گا۔ یہ کوئی معمولی بول نہیں ہیں، یہ وہ الفاظ ہیں جو سب سے پہلے ابراہیم خلیل اللہ کی زبان پر آئے تھے اور جسے اللہ تعالٰی نے قیامت تک کے لیے باقی رہنے والی دنیائے انسانیت کے لیے رہنما کتاب قرآن مجید میں نازل فرما دیا ہے۔
اللہ نے مسلمانوں کو دو عیدیں دی ہیں اور دونوں مقصدیت سے بھرپور ہیں۔ عید قرباں منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اسلام و ایمان کی وہی روح اور اللہ کے ساتھ محبت و وفاداری کی ویسی ہی کیفیت پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔ اگر کوئی انسان محض ایک جانور پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل قربانی کی اس اصل روح سے خالی رہے تو وہ عید کے موقع پر محض ایک رسم پوری کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی قربانی کی اصل روح کے ساتھ اللہ کی راہ میں جانور قربان کرے تو وہ اس کے ذریعہ وہ اپنے ایمان کو تازہ کرتے ہوئے رب سے باندھے گئے اپنے عہد کی تجدید کرتا ہے اور اس تجدید عہد کا تقاضا یہ ہوگا کہ اس کی ساری زندگی کا رخ اس خدا کی طرف ہو جائے جو بیت الحرام کا رب ہے۔ مسلمان کی زندگی کا رْخ ایک، قبلہ ایک، مقصد ایک اور منزل بھی ایک ہونی چاہیے۔
عید الاضحٰی اللہ تعالیٰ کے دین کے مکمل ہونے کا موقع بھی ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر جمعہ کے دن عرفات کے میدان میں نازل ہونے والی یہ آیت دین کے مکمل ہونے کی خوش خبری ہے: (ترجمہ) ’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تمہارے اوپر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا‘‘ (المائدہ 3:5)۔ خوشی کے اس دن کو سنتِ ابراہیمی کے ساتھ جوڑ کر یہ طے کر دیا گیا کہ اس دین کو ماننے والے اپنے ایمان کی تکمیل کے لیے اپنے جد امجد سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح قربانی کریں جن کی ساری زندگی ہی قربانیوں سے عبارت تھی۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے دور میں جن حالات سے دوچار تھے کچھ ایسے ہی حالات سے آج دنیا بھر کے مسلمان دوچار ہیں۔ وقت کی نمرودی طاقتوں کو سب سے بڑا خطرہ اگر کسی سے محسوس ہوتا ہے تو وہ اسلام اور اس کی نظریاتی طاقت ہے۔ مسلمانوں سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ پیغام توحید اور احکام دین پر عمل پیرا ہونے کے بجائے ’’ان کے من پسند اسلام‘‘ کو اختیار کریں اور اس تہذیب کے ڈھانچےمیں خود کو ڈھال لیں جو اسلامی تہذیب کی عین ضد ہے۔ خود ہمارے ملک میں ہندوتوا تحریک اپنے عروج پر ہے۔ غور کریں تو کچھ ایسی ہی صورتحال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش کا نقطہ آغاز تھی۔ اس وقت کا معاشرہ چاہتا تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) الہ واحد کی بندگی کے بجائے مشرکانہ زندگی پر سمجھوتہ کرلیں جس میں سورج، چاند اور ستارہ پرستی کے علاوہ بے شمار چیزوں کی پرستش کی جاتی تھی۔ ان سب کے خلاف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دلائل کی قوت کے ساتھ آواز اٹھائی تو قوم دشمنی پر اتر آئی اور آپ کو ہجرت پر مجبور کردیا۔ دراصل یہ وہی رویہ ہے جسے ہر دور میں باطل پرستوں نے حق پرستوں کے ساتھ روا رکھا ہے۔ آج بھی مسلمان دنیا کے مختلف ملکوں میں باطل طاقتوں کا نشانہ ستم بنے ہوئے ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں، فلسطینی مسلمان اپنی ہی سرزمین پر پناہ گزینوں جیسی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں، عراق، شام، مصر اور لیبیا سمیت کئی مسلم ممالک مخالف اسلام طاقتوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں۔ گویا اولادِ ابراہیم کے لیے آج بھی آزمائشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ ان نازک اور پرفتن حالات میں مسلمانوں کے لیے اسی روش کو اختیار کرنا ضروری ہے جو جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اختیار کی تھی یعنی اسلام دشمنوں اور ان کی سازشوں سے مرعوب نہ ہوں بلکہ اپنی منزل و نصب العین پر نظر رکھی جائے اور پورے ایمانی جوش و جذبے کے ساتھ نہ صرف حق کے راستہ پر ڈٹے رہیں اور اس کی طرف خلق خدا کو دعوت بھی دیتے رہیں۔
عید قرباں کا پیغام یہی ہے کہ سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے دین و شریعت اور اسلامی تشخص اور شعائر اسلامی کے بقا و تحفظ اور اپنی نسلوں کے ایمان کی سلامتی کے لیے وقت کی نمرودی طاقتوں کا مقابلہ صبر واستقامت سے کیا جائے اور نور توحید کے اتمام کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح جانفشانی کے ساتھ جدوجہد کی جائے اور اس راستے میں اپنی خواہشات، آرام و سکون، جان و مال، اولاد اور قیمتی سے قیمتی چیزوں کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے آپ میں ایک امت تھے اور آپ کی دعوت عالمی وحدت کا ایک پیغام ہے، لیکن امت مسلمہ نے منتشر اور پارہ پارہ ہو کر بہت سی آفتیں خود ہی اپنے سر ڈال لی ہیں۔ آج یہ امت اگر امت واحدہ کی شکل میں باطل طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی تو اتنی آفتیں در نہ آتیں۔ یہ عید دراصل ملت اسلامیہ کے لیے انفرادی و اجتماعی خود احتسابی کا ایک پیام بھی ہے۔ ہم عید کی سوغات کے زیادہ حق دار اسی وقت ہوں گے جب اس احتساب میں کھرے ثابت ہوں گے۔ عید کا یہ موقع ہمیں اپنے سماجی رویوں کو درست کرنے کا بھی پیغام دیتا ہے۔ قربانی جیسی عظیم عبادت کی انجام دہی میں جذبہ تفاخر کے بجائے شان بندگی کا عنصر نمایاں ہونا چاہیے۔