اداریہ

بچ گئی کتابِ آئین، روحِ کتاب نہ رہی

یوں تو اب تک کوئی یہ طے نہیں کر پایا ہے کہ بھارت ہندو راشٹر بن چکا ہے، بننے کی راہ پر ہے یا کہ صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے وہ ایک ’ہندو ملک‘ ہی ہے۔ کیوں کہ اس سلسلے میں اتنے دعوے کیے جا چکے ہیں کہ آپ ان کی بنیاد پر اپنے تئیں جو بھی نتیجہ اخذ کریں گے تو اس کے حق میں کہیں نہ کیں کوئی نہ کوئی بیان، تحریر یا دلیل میسر آ ہی جائے گی۔ آج کل میڈیا کے پسندیدہ نوجوان بابا باگیشور دھیریندر شاستری مسلسل ہندو راشٹر کا مطالبہ کرتے ہوئے سنے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب ملک کی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے بارے میں بھی اتنی ساری مثبت و منفی باتیں بیک وقت کہی جاتی ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو تسلیم کرنا یا کسی بات کو مسترد کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلا آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے آبادی بڑھنے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بھارت میں مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہے وہ رہنا چاہیں تو یہاں رہیں، اپنے پُرکھوں کی راہ پر پلٹ آنا چاہیں تو آجائیں۔ ہندوؤں میں اس کا اصرار نہیں ہے۔ اسلام کو خطرہ نہیں ہے۔‘‘ جب کہ جیوتش پیٹھ کے شنکرآچاریہ سوامی اوی مکتیشورانند جی نے پچھلے ماہ مہین فرق کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ہندو راشٹر سے اپنا بھلا نہیں ہوگا ہمیں ’رام راج‘ ہی چاہیے۔ جہاں کوئی اپنا پرایا نہیں ہوتا اور جہاں فوری، یکساں انصاف میسر آتا تھا۔‘‘ سوامی جی کے مطابق موجودہ پولرائزیشن کی سیاست دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں پرائے پن کا احساس پیدا کر رہی ہے۔ لیکن بعض بم دھماکوں کے مقدمات میں جس ’سناتن سنستھا‘ نامی بدنام گروپ کے کارندوں پر الزامات عائد ہوئے تھے ان کے اخبار ’سناتن پربھات‘ کا ماننا ہے کہ در اصل ’’ہندو راشٹر کے ذریعے رام راج کی تشکیل کی جائے گی اس لیے سب سے پہلے ہندو راشٹر لانا ہے۔”
جو کنفیوژن ہندو مملکت کے معاملے پر ہے وہی کچھ ہندوتوا کے نظریے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، بالخصوص مہاراشٹر کے حالات میں اس بات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ آنجہانی بال ٹھاکرے کے بعد راج ٹھاکرے، ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے تینوں ہندوتوا کے دعوے دار ہیں لیکن ان کے ہندوتوا کی لائن سے بی جے پی کا ہندوتوا کتنا میل کھانے والا ہو سکتا ہے جو کہ باقی سب کو نگل جانا چاہتا ہے؟
باہم متضاد یا مبہم یا دوہرے مفہوم کے ساتھ معاملات کو اٹھانا اور پھر بحث میں سے اپنے مطلب کی بات کو اختیار کرلینے والا رویہ ہماری سیاست میں بھی داخل ہو چکا ہے۔
نو برس قبل ماہ مئی 2014 میں پہلی بار ملک کے ایوانِ پارلیمنٹ میں داخل ہوتے وقت سیڑھیوں کا بوسہ لینے والی تصویر دکھانے کے بعد اب بھارت کے سیکولر آئین کی روح کے خلاف قانون سازی کے اعلی ترین ایوانوں میں ’سنگول‘ جیسی مذہبی علامات کو نمایاں طور پر نصب کر کے مخصوص سناتنی سول کوڈ کو عملا نافذ کرنے کی جرأت وزیر اعظم کے ذریعے کی جا چکی ہے۔ ہندوتوا اور ہندو راج کے پس پردہ برہمن راج آنے کی بات ملک میں اکثریت میں پایا جانے والا ’بہوجن سماج‘ ایک عرصے سے کہتا آ رہا ہے۔ آئین کے روح رواں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے بھی بڑی شد و مد کے ساتھ مخالفت کی تھی۔
مودی جی کی قیادت میں ہندوتوا اور ترقی کے ماڈل کی ناکامی پر خود پارٹی کے ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس نے اپنے ترجمان ہفتہ وار ’آرگنائزر‘ کے اداریے اور کرناٹکا میں بی جے پی کی شرم ناک انتخابی شکست پر تجزیاتی مضمون کے ذریعے سخت تبصرے کیے ہیں۔ علاقائی ایشوز پر انتخاب لڑنے اور علاقائی سطح پر مضبوط قیادت پیدا کرنے والا سبق سکھانے کے ساتھ سنگھ حکم راں پارٹی کو تنبیہ بھی دے رہا ہے کہ محض مودی جی کی ڈگڈگی بجانے سے ووٹ پانے کے دن اب لد چکے ہیں۔ گویا ہندوتوا کے نظریے پر عمل آوری کے لیے نئی راہیں اور اس کے لیے نئے چہرے کی تلاش کا احساس ہونے لگا ہے۔
رام مندر سنگ بنیاد کی تقریبات کے دوران ایودھیا میں سیکیولر اور جمہوری ملک کے وزیر اعظم نے سناتن دھرم کی رسومات کو اولیت دی تھی۔ حالانکہ خود بابری مسجد کی مسماری کو سپریم کورٹ نے غلط قرار دیا اور زمین کی ملکیت کے مقدمے میں فیصلہ تو کیا لیکن انصاف نہ ہونے کی خلش باقی رہ گئی۔
اب مختلف ججوں نے منواسمرتی اور سناتنی ایشوز پر مبنی فیصلے دینا یا ان کے حوالے درج کرنے کا سلسلہ دراز ہی کر دیا ہے۔ 3 جون 2023 کے تازہ ترین معاملہ میں سپریم کورٹ تعطیل پر ہونے کے باوجود اس نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی ایک انتہائی مضحکہ خیز ہدایت پر آنا فانا روک لگا دی جس میں عدالت نے لکھنؤ یونیورسٹی کے علمِ نجوم کے صدر شعبہ کو حکم جاری کیا تھا کہ وہ جنم کنڈلی دیکھ کر مظلوم  خاتون کے ’مانگلِک‘ (منگل دوش یعنی نقص والی) ہونے نہ ہونے کی جانچ کرے۔ در اصل شادی کا جھانسہ دے کر الہ آباد یونیورسٹی کا ایک پروفیسر ایک خاتون سے آزادانہ جسمانی تعلقات بناتا رہا لیکن شادی کے بندھن میں اس کو لانے سے بچتا رہا۔ شکایت کے بعد جیل ہوئی تو اپنی برہمنی سوچ کی آڑ لی اور ہائی کورٹ نے اسی سوچ کے مطابق حکم جاری بھی کردیا تھا۔ اس سے قبل راجستھان ہائی کورٹ کے ایک جج تھے مہیش چندر شرما جنہوں نے گائے کو ’قومی جانور‘ مقرر کرنے کی تجویز دی تھی، انہی جج نے کہا تھا کہ مور فطری عملِ تولید سے نہیں پیدا ہوتے بلکہ اس کے موتیوں کی طرح کے آنسو مادہ مورنی چُگ لیتی ہے تب ان کے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ گؤرکشا کو اب ’بینادی حق‘ کے طور پر تسلیم کر لینا چاہیے یہ بتانے والے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کے اس بیان کا تناظر محض اتنا سا تھا کہ جاوید نامی ایک فرد پر ایک گائے چرانے کا الزام تھا جس کی ضمانت کی عرضی پر بات ہو رہی تھی لیکن جج صاحب اپنے ہندوتوا ایجنڈے پر ریمارک کرنا نہیں بھولے۔
کل ملا کر اسے فکری انتشار بلکہ آلودگی کہا جائے گا کہ ایک مخصوص ذات کے مفادات اور غلبے کو محفوظ رکھنے کے لیے اتنے پاپڑ بیلے جا رہے ہیں۔ منواسمرتی کے لحاظ سے قانونا نابالغ بچیوں کے اسقاطِ حمل کا فیصلہ کرنا ہو یا منو کے قانون اور ستی دیوی کا جواز ہو، نفرت، تعصب کو روا رکھنے کے لیے وراثتوں میں ملی غلاظتوں کا دیگر سماجوں اور مذاہب کے سر پر ٹھیکرا پھوڑنا ہو ہر بار نئی کسرت کرنی پڑتی ہے۔ کاش کہ ایک صراط مستقیم اور دین قیم کی آسان راہ کو کھلی آنکھوں سے دیکھا جاتا؟
أفَمَن أُسِّس بُنیانہ علیٰ ریب۔۔۔ در اصل خالق و مالک کے عطا کردہ نظامِ حیات کو اپنانے میں دنیا اور آخرت میں فلاح کی ضمانت کے ساتھ ساتھ ترقی اور عزت و وقار کی بھی گارنٹی ملتی ہے۔ ملک کے اہل ایمان باشندگان وطن، اپنے پاس موجود اس روشنی سے منور کرنے کے لیے دامے درمے قدمے سخنے کمر بستہ ہو جائیں ورنہ ایک کشتی میں سوار مسافرین ایک ساتھ لنگر ڈالیں گے یا ایک ساتھ ڈوبیں گے۔