اداریہ

انسانی جانوں کا تحفظ اور حکومت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ

2 جون جمعہ کی رات اڈیشہ کے بالاسور کے مقام پر بھارتی ریلوے کی تین ٹرینوں کے درمیان ٹکراو کے سبب ایک انتہائی دل خراش حادثہ پیش آیا جس میں سرکاری اطلاعات کے مطابق 288 افراد ہلاک اور تقریباً 900 افراد بری طرح زخمی ہوگئے ہیں۔ اس حادثے میں بنگلورو-ہوڑہ سوپر فاسٹ ایکسپریس، شالیمار-چینائی سنٹرل کورومنڈل ایکسپریس اور ایک مال گاڑی آپس میں ٹکرا گئے۔ ان دو ایکسپریس ٹرینوں میں تقریباً دو ہزار افراد سوار تھے جن میں اکثر مسافر بہار اور بنگال کے مہاجر مزدور تھے جو اپنی روزی روٹی کے لیے اپنے وطن سے ہجرت کیے ہوئے ہیں۔
حادثہ اس قدر شدید تھا کہ دونوں ٹرینوں کی کئی بوگیوں کے پرخچے اڑ گئے۔ حادثے کے نتیجے میں دو اہم صنعتی مراکز کے درمیان مسافروں اور سامان کی ٹرینوں کی آمد و رفت بری طرح متاثر ہوگئی۔ ریلوے حکام کے مطابق 123 ٹرینوں کو منسوخ کر دیا گیا جبکہ 56 ٹرینوں کا رخ دوسری طرف موڑ دیا گیا ہے۔ کم فاصلے کی دس ٹرینیں بند کر دی گئیں اور 14 ٹرینوں کی تاریخوں میں تبدیلی کی گئی ہے۔ اس حادثے کے بعد حکمراں جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور حسب روایت غریب مسافروں کی موت پر سیاست بھی شروع ہو چکی ہے۔ حکومت اسے کسی سازش کا نتیجہ قرار دے رہی ہے جبکہ عام تاثر یہ ہے کہ یہ حادثہ ریلوے حکام کی لاپروائی اور غلطی کے نتیجے میں پیش آیا۔ وجہ جو بھی ہو اس حادثے میں ایسے غریب مسافروں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا جو اپنے کنبوں کا سہارا تھے۔ ادارہ ہفت روزہ دعوت اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے غم میں برابر کا شریک ہے اور ان سے اظہار تعزیت کرتا ہے۔
انڈین ریلویز، ملک میں مسافروں اور سامان کے حمل و نقل کا سب سے اہم ذریعہ ہے اور غریب و متوسط طبقے کے لیے سب سے سستا وسیلہ سفر بھی ہے۔ چنانچہ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ دو کروڑ پچیس لاکھ افراد اس کا استعمال کرتے ہیں۔ بھارتی ریل گاڑیاں کل 67 ہزار کلو میٹر سے زائد کا فاصلہ طے کرتی ہیں، جبکہ پٹریوںکی کل لمبائی ایک لاکھ 26 ہزار کلومیٹر سے زائد ہے۔ بھارت کا ریلوے نظام امریکہ، روس اور چین کے بعد دنیا کا چوتھا سب سے بڑا ریلوے نظام ہے۔ اس کے ساتھ یہ دنیا کا سب سے مصروف ترین ریل نظام بھی ہے جس کے ذریعے سالانہ 800 کروڑ مسافر سفر کرتے ہیں اور 120 کروڑ ٹن سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد سے اس نظام کو ترقی دینے اور بہتر بنانے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں لیکن یہ عمل کافی سست روی کا شکار ہے اور اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظام حکومتی لاپروائی کا بری طرح شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ریلوے کا استعمال بالعموم غریب اور متوسط طبقے کے افراد کرتے ہیں اور موجودہ حکومت کو غریبوں سے زیادہ دولت مندوں کی فکر ہے۔ اسی وجہ سے ملک میں ہوائی سفر اور اس کے لیے درکار انفراسٹرکچر کی تیاری پر حالیہ دنوں میں بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے جبکہ ریلوے کا نظام حکومت کی عدم توجہی کے سبب بدتر صورت حال سے دو چار ہے۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسافروں کا تحفظ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تصادم سے تحفظ کے آلات کی تنصیب حادثوں سے بچاو کے لیے سب سے اہم اقدام ہے۔ 2011-12 کے ریلوے بجٹ میں ممتا بنرجی نے ان آلات کی تنصیب کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ جولائی 2020 میں مودی حکومت نے اسی منصوبے کو کَوَچ(kavach) کے نام سے شروع کیا تھا لیکن ان تمام برسوں میں اس پر کچھ خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ ابھی تک ملک کے 65 ہزار کلومیٹر ریل نیٹ ورک میں سے صرف 1455 کلومیٹر حصے کو ہی ان آلات سے لیس کیا جا سکا ہے۔ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق ملک کی 23 ہزار ٹرینوں میں سے ابھی تک صرف 65 ٹرینیں ہی ان آلات سے لیس ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کی توجہ کن امور پر زیادہ ہے۔
ریلوے حادثات کی روک تھام کے سلسلے میں خود بی جے پی کے رکن راجیہ سبھا کی صدارت میں پارلیمانی اسٹانڈنگ کمیٹی نے جو سفارشات دسمبر 2022 میں پیش کی تھیں جن میں کئی اہم امور شامل تھے لیکن ان پر بھی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی، ریلوے بورڈ نے ان سفارشات پر جس طرح کا رویہ اختیار کیا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کے مطابق ریلوے کے تحفظ اور حادثات کی روک تھام کے لیے فنڈنگ میں 79 فیصد کمی کی گئی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حکومت کو عوام کی زندگیوں کی حفاظت سے کوئی خاص دل چسپی نہیں ہے، دل چسپی پیدا ہوگی بھی کیسے، اسے تو محض انتخابات جیتنے کی دھن سوار ہے؟ جب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ جیسی اہم اور ذمہ دار شخصیتیں ریاستوں کے انتخابات میں پارٹی کی تشہیری مہم میں دن رات لگی رہتی ہیں تو دیگر اہم کاموں کے لیے ان کے پاس وقت ہی کہاں بچتا ہے؟ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ پارٹی کے نہیں بلکہ ملک کی عوام کے جانوں و مالوں کے ذمہ دار ہیں اور ایک سو تیس کروڑ عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ان کی منصبی ذمہ داری بھی ہے اور اخلاقی بھی۔ اگر وہ اس اہم ذمہ داری سے پہلو تہی کریں گے تو انہیں اس کرسی پر بیٹھنے کا بھی کوئی حق نہیں رہے گا۔