اداریہ

حق آزادی کا مطلب

اظہارِ رائے کی آزادی کو آج جس انداز سے پیش کیا جا رہا ہے اس پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ بھارتی آئین نے اپنے شہریوں کو جن چھ ’بنیادی حقوق‘ کی گارنٹی دی ہے ان میں ایک ’حقِ آزادی‘ (Right to Freedom) بھی ہے۔ آئین کی اسی شق سے اظہار کی آزادی کا حق اور اسی سے پریس اور میڈیا کو ملنے والی آزادی بھی مشتق ہے۔ 10 دسمبر کو یوم عالمی انسانی حقوق اور 18 دسمبر کو یوم قومی اقلیتی حقوق منائے جاتے ہیں۔ ان مواقع پر اس طرح کے حقوق کی یاد دہانی کروانا ایک رسم بن گئی ہے۔ کم از کم خصوصی ایام کے اہتمام کے ذیل میں شہریوں کو فراہمی حقوق کا اعادہ اور ان کی پامالیوں کا تذکرہ بھی غنیمت خیال کیا جاتا ہے۔ ان دنوں میں تجاویز پر بات چیت کے ساتھ ساتھ پامالیوں کا ذکر بھی چھایا رہتا ہے۔
کیا یہ اتفاقِ محض تھا کہ یومِ اقلیتی حقوق سے ایک دن قبل سپریم کورٹ نے گجرات کے بد ترین تشدد کا شکار بلقیس بانو کی ایک عرضی مسترد کر دی جس میں اس مظلوم نے عدالتی فیصلے پر نظرِ ثانی کرنے کی درخواست کی تھی۔ اسی فیصلے میں عصمت دری اور قتل کے سزا یافتہ مجرموں کو جیل سے باہر نکالنے کے سرکاری فیصلے پر مہر ثبت کی گئی تھی۔ حالانکہ بلقیس بانو کی ایک اور عرضی عدالت میں موجود ہے لیکن سپریم کورٹ کے ذریعے درندگی اور جنسی زیادتیوں والے وہ جرائم جن کو عدالت وحشیانہ فعل (heinous) قرار دیتی ہے ان سے بلقیس بانو کے کیس کو کیوں کر الگ رکھا جا سکتا ہے؟ نیز بلقیس بانو کو حق آزادی کے تحت عزت و احترام سے جینے کا حق دلانا کیا عدالت کا فرض نہیں ہے؟
دوسری جانب ایک طبقہ اسی آزادی کے نام پر بے دریغ دیگر قوموں اور سماجوں پر فقرے کَستا ہے اور ان کو آئے دن مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے حتٰی کہ ان کی عزت و آبرو اور جان و مال وغیرہ کو تک پامال کرنا شان سمجھتا ہے! ان کا از خود نوٹس لینا بھی ایک آئینی تجویز ہے۔ میڈیا ان ایشوز پر جگانے کا کام نہیں کر رہا ہے۔ اور عدالتیں بھی ایسا نہ کریں تو قومی اور ریاستی حقوقِ انسانی کے متعدد کمیشنس بھی ان سے آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔ وہ تب ہی جاگتے ہیں جب حکمرانوں سے وابستہ افراد اور ٹولیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
شہری تنظیموں کا حال یہ ہے کہ وہ زمین پر سرگرم تو ہیں لیکن ان کی آوازوں کو بے اثر کیا جا رہا ہے۔ لیکن معاملہ جب مذہبی رخ اختیار کرتا ہے تو ان کے ’لبرل‘ طبقے بھی مسلمانوں کو بیچ منجھدھار میں چھوڑ دیتے ہیں۔ مثلا لباس اور تبدیلیِ مذہب یا یونیفارم سول کوڈ کی لڑائی کے بیچ مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی پامالیوں کو روا رکھا جاتا ہے۔ جمہوریت کا چوتھا ستون کہلانے والا میڈیا کمزور ہوا ہے۔ میڈیا کا قابل لحاظ حصہ حکومت کے ہر فیصلے پر ڈُگڈگی بجانے میں لگا ہوا ہے تب بھی چھن چَھن کر خبریں اور تجزیے سامنے آ ہی جاتے ہیں جن سے امن اور انصاف پسند شہریوں کو حوصلہ لینا چاہیے اور داد رسی کی اپنی سی کوششوں کو جاری بھی رکھنا چاہیے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے ایک بالی ووڈ فلم کے گانے میں عریاں اور فحش لباس پر ہنگامہ کھڑا ہوا جس سے مذکورہ بالا گروپوں کے مباحث نے ثابت کر دیا کہ ہر فریق اسی ‘حق آزادی‘ کی آڑ میں اپنی لکیر پیٹ رہا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ چین کا جارحانہ رویہ مرکزی حکومت کی فضیحت کا سبب بن رہا تھا، سو اس ایشو سے عوام کی توجہ کو ہٹانے کے لیے انہیں ایک فلمی بحث میں الجھا دیا گیا ہے۔ تجزیہ نگاروں نے اس مناسبت سے بتایا کہ معاش، جرائم اور نظم و قانون وغیرہ محاذوں پر مسلسل ناکامیوں کی پردہ پوشی بھی اس مہم کے پس پردہ کار فرما ہے۔
اصل بحث یہ ہونی چاہیے کہ حق آزادی کیا کوئی مطلق حق ہے اور انسان خود اپنے تئیں اپنی آزادی کی حدود کو متعین کرنے کا مجاز ہے یا اس کو اپنے خالق و مالک کی ہدایت پر انحصار کرنا چاہیے؟ فلموں کو ایک ’انڈسٹری‘ کا درجہ حاصل ہے جہاں سرمایہ کاری کے بعد اپنے منافع کو حاصل کرنے کو اولیت دی جاتی ہے۔ دوسرا غالب پہلو تفریحِ طبع کا ہے۔ ان دونوں کے بیچ اگر کچھ ہیں تو وہ ہے آئینی، اخلاقی اور سماجی اقدار جن کا پاس و لحاظ کبھی رکھا ہی نہیں جاتا۔
کاش کہ متبادل نظام زندگی کا پیغام لے کر چلنے والے حلقے اپنی صفوں میں اس میدان میں ایسے ماہر پیشہ ور پیدا کریں جو ملک اور دنیا کو صحت مند تفریح کا سامان فراہم کرا سکیں۔ ایرانی فلمیں اور ترکی سیریلس اور بعض بھارتی پروگرامس اخلاقی حدود کے ساتھ اس قبیل کی مثالیں پیش کرتی رہتی ہیں۔ اسی کے ساتھ اپنی سابقہ زندگی سے توبہ کر کے پلٹنے والے یا نئے سرے سے آغوشِ اسلام میں پناہ لینے والے اداکار اور نغمہ نگاروں کی خدمات کو بہتر انداز سے بروئے کار لانا چاہیے نہ کہ ان کو گوشہ نشین بنا دیا جائے کہ ان کے ٹیلینٹ کو ہی زنگ لگ جایے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حق آزادی کے نام پر دین و مذہب کو نشانہ بنانے والوں کو دندان شکن جواب زبانِ حال سے مل سکے گا، زبانِ قال کی شاید ضرورت ہی نہ رہے۔