اداریہ

جرائم، سیاست اور عدالت

ہمارے ملک میں سیاست اور جرائم کا رشتہ نہایت ہی مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ آزادی کے وقت جو قائدین سیاست میں سرگرم عمل تھے ان کے لیے سیاست دراصل ملک اور عوام کی خدمت کا ذریعہ تھی۔ وہ روکھی سوکھی کھا کر سادہ زندگی گزارتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہر دم کوشاں رہتے تھے۔ سیاست دانوں کی اگلی نسل نے سیاست کو عوامی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے لیے عیش و آرام کا وسیلہ بنالیا۔ اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں مرکوز رکھنے کے لیے سیاست داں دولت اور طاقت کا سہارا لینے لگے۔ ناجائز دولت اور طاقت کے حصول کے لیے سیاست دانوں اور مجرموں کے درمیان گٹھ جوڑ ہونے لگا اور دونوں ایک دوسرے کو پناہ دینے کا کام کرنے لگے۔ جب جرائم پیشہ لوگوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کے لیے یہ گٹھ جوڑ بھی بہت زیادہ فائدہ مند نہیں رہا تو خود انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھنا شروع کیا تاکہ عوامی خدمت کی آڑ میں وہ اپنی مجرمانہ سرگرمیاں بلا خوف وخطر جاری رکھ سکیں۔ اس طرح سیاست نے ملک اور عوام کی خدمت کے نام سے اپنا سفر شروع کیا جو بتدریج مجرموں کی پناہ گاہ بننے کے مرحلے میں پہنچ گئی۔
بھارتی سیاست کے متعلق اس گفتگو کا پس منظر دراصل رفیق عدالت (Amicus curiae)وجے ہنساریہ کی وہ رپورٹ ہے جو انہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ملک کی مختلف عدالتوں میں پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے ارکان کے خلاف 5079  مقدمات زیر دوراں ہیں اور ان میں سے 40 فی صد سے زیادہ مقدمات پچھلے پانچ برسوں سے زیر التواء چل رہے ہیں۔ وجے ہنساریہ کی جانب سے داخل کردہ رپورٹ میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ جن ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں ان کی سنوائی روزانہ کی اساس پر کی جائے۔ اخبار دی ہندو کے مطابق  وجے ہنساریہ کی رپورٹ میں ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے جو جولائی 2022 میں منظرعام پر آئی تھی۔ اس رپورٹ میں انتہائی چونکا دینے والے انکشافات کیے گئے تھے۔ رپورٹ نے جرائم اور سیاست کے اس رشتے کو جس طرح واشگاف کیا اس سے ملک کے شہری یہ  سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر انہوں نے اپنا مستقبل کن لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک کے قانون ساز ادارے تک مجرموں کی آماج گاہ بن چکے ہیں۔ اس وقت لوک سبھا کے 542 ارکان میں سے 236 یعنی 44 فیصد ارکان کے خلاف فوجداری مقدمات زیر دوران ہیں جب کہ ملک کی اعلیٰ ترین مجلسِ مقننہ راجیہ سبھا کے 226 میں سے 71 یعنی 31 فیصد ارکان فوجداری مقدمات میں ماخوذ ہیں۔ ریاستوں کے اراکین اسمبلی بھی اس معاملے میں اپنے بڑوں سے کچھ کم نہیں ہیں۔ ریاستوں کے 3991 ارکان اسمبلیوں میں سے 1723 یعنی 43 فیصد ارکان مختلف جرائم میں ماخوذ ہیں اور ان پر فوجداری مقدمات درج ہیں۔ وجے ہنساریہ نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو بتایا کہ مجالس قانون ساز کے موجودہ اور سابق ارکان کے خلاف اس قدر بڑی تعداد میں فوجداری مقدمات کا درج ہونا ملک کے لیے نہایت سنگین مسئلہ ہے۔ جب ملک کے قانون ساز اداروں کے ہی کم و بیش نصف ارکان مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہوں اور اس کے لیے ان کے خلاف ملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات زیر دوراں ہوں تو وہ آخر کیسے ملک اور عوام کی بہتری اور فلاح کے لیے کچھ سوچ سکتے ہیں اور جرائم سے لڑنے کس طرح قانون سازی کر سکتے ہیں؟ قانون بنانے والے ہی جب مجرم ہوں تو وہ ملک کے سے جرائم کا خاتمہ کیسے کرسکتے ہیں؟ نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے عوام اس صورت حال کے بھیانک نتائج کو بھگت رہے ہیں۔ نہ تو عوام کی جان و مال محفوظ ہے، نہ عورتوں کی عصمتیں۔ ہر طرف بدامنی، انتشار، غربت، بے روزگاری اور جرائم کی کثرت نے دنیا کے سامنے ملک کو شرمسار کر دیا ہے۔
جب مجرموں کو اقتدار اور سیاست کا سہارا مل جاتا ہے تو وہ ایک جانب اپنی طاقت کے ذریعے ان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے مظلوم مدعیان کو خاموش کر دیتے ہیں، اور اگر اس کے بعد بھی ان پر مقدمہ درج ہو جائے تو وہ اپنی سیاسی قوت کا استعمال کرکے عدالتی کارروائیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، سنوائی کو ملتوی کراتے ہیں، انہیں تاریخ پر تاریخ ملتی جاتی ہے، مقدمات برسہا برس تک اس طرح چلتے رہتے ہیں اور بالآخر انصاف ہی دم توڑ دیتا ہے۔ وجے ہنساریہ نے اس بات کی بھی سفارش کی ہے کہ استثنائی صورتوں کے سوا کسی بھی مقدمے کو التوا میں نہ رکھا جائے، اور اگر کوئی ایم پی یا ایم ایل اے اپنی طاقت کے ذریعے مقدمے کی کارروائی کو ملتوی کرانے کی کوشش کرے تو اس کی ضمانت منسوخ کردی جائے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس رپورٹ کے بعد صورت حال تبدیل ہوگی؟ کیا عدالتیں ان سفارشات کے مطابق ان طاقتور مجرم سیاست دانوں کے خلاف جاری مقدمات کو تیز رفتار سنوائی کے ذریعے فیصل کریں گے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے؟ مجرمین، مجالسِ قانون ساز اور عدالتوں کے اس مثلث میں کس کی طاقت فیصلہ کن رول ادا کرے گی؟
موجودہ سیاست کے رنگ ڈھنگ کو دیکھتے ہوئے ان سوالات کے جوابات دینا کچھ مشکل نہیں ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو جانے کے بعد اپنے اور اپنی پارٹیوں کے کارندوں پر درج مقدمات از خود واپس لے لیے جاتے ہیں یا عوام اور مظلومین اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف داد رسی کے لیے ہفتوں دھرنے اور احتجاج کرتے ہیں۔ اور جنسی ہراسانی، بد عنوانی اور نفرت انگیزی جیسے سنگین الزامات عائد ہو جانے کے باوجود ملزمین کے خلاف نہ پارٹی ایکشن لیتی ہے نہ پولیس۔
ملک کے شہریوں کو اپنے آپ سے یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ آخر ہمارے ملک کی سیاست کو اس مقام تک کس نے پہنچایا ہے؟ دراصل خود ہم نے اپنے ووٹوں سے اپنے لیے باکردار اور شریف لوگوں کے مقابلے میں مجرم پیشہ افراد منتخب کیے ہیں۔ جب تک ملک کے عوام باشعور نہیں ہوتے اور مجرم پیشہ افراد کو سیاست سے بے دخل کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا نہیں کرتے ان پر ایسے ہی بدکردار، جرائم پیشہ اور خائن لیڈر مسلط ہوتے رہیں گے اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایوان اقتدار، مجالس قانون ساز اور عدالت سب کا استحصال کرتے رہیں گے۔