اداریہ

قومی سلامتی پر آئینی داد رسی مقدم

کہنے کو تو ہماری حکومتیں قومی مفاد اور قومی سلامتی کے موضوع پر بڑی جذباتی اور لچھے باتیں کیا کرتی ہیں لیکن اصلا جہاں اس سلامتی کو چوٹ پہنچ رہی ہوتی ہے وہاں وہ بے عملی کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہیں، جیسا کہ کارگل، پلوامہ اور تہواروں پر پھوٹ پڑنے والا تشدد اور چینی در اندازی وغیرہ۔ اس کے برخلاف وہ ان پر ہاتھ ڈالتی ہیں جو ملک و قوم اور معاشرے کے مفاد میں اپنا فرض ادا کر رہے ہوتے ہیں جیسے کہ خود مختار میڈیا اور مخلص سماجی کارکنان وغیرہ۔ موجودہ مرکزی حکومت کے اسی دوہرے کردار پر ملکی و عالمی اداروں اور قومی عدالتوں نے متعدد بار سرزنش کی لیکن مجال ہے جو وہ ہوش کے ناخن لے؟ مانا کے قومی سلامتی کی ذمہ داری حکومت کے اوپر عائد ہوتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وقت کا اقتدار جسے چاہے قومی سلامتی کے لیے مفید اور جسے چاہے خطرناک قرار دے لے؟ عدالت، نظم و قانون اور انصاف کے فطری تقاضوں کا لحاظ رکھنا اس سے کم ضروری تو نہیں؟
جنوبی ایشیائی ذرائع ابلاغ کا مزاج ہمیشہ اقتدار مخالف (اینٹی اسٹابلشمنٹ) رجحان والا رہا ہے۔ غیر ملکی انگریز اور ان کی جابر انتظامیہ اور پولیس کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا یہاں کی جدوجہدِ آزادی کا خاصّہ بلکہ وہ ایک جزوِ لاینفک بن گیا تھا۔ چنانچہ مجاہدینِ آزادی نے جو بھی اخبارات اور رسائل شائع کیے ان میں حکومت کی پالیسوں پر نکتہ چینی اور شہریوں کو ان کے برے اثرات سے واقف کرانے پر زور دیا جاتا۔ 1947 میں ہم غلامی سے نکل آئے لیکن آزادی کے بعد میڈیا میں یہی رجحان جاری رہا۔ 2014 میں جو نیا اقتدار یہاں براجمان ہوا اس کا ماننا ہے کہ میڈیا کو حکومت مخالف نہیں رہنا چاہیے کیوں کہ اب ملک میں ان کے اپنے لوگوں کا ’دیسی‘ اقتدار آگیا ہے۔ موجودہ حکومت بزعم خود یہ خیال کرتی ہے کہ اس کا ہر فیصلہ ’قومی مفاد‘ میں ہوتا ہے بنا بریں اس حکومت کی نکتہ چینی ملک و قوم کی مخالفت کے مانند ہوگی۔ رفتہ رفتہ ملک کے دانشوروں اور صحافیوں کے بیچ اس دلیل کو نفوذ حاصل ہوتا گیا یہاں تک کہ جس نے ان کو نہیں اپنایا اس سے بزور تسلیم کروایا گیا، جس نے سرتسلیم خم نہ کیا اس کی کمپنی اور مالکان کو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس لائن کو اختیار کرنے کو مجبور کیا گیا۔ چار و ناچار ملازم صحافیوں نے ادارہ کی پالیسی کے نام پر حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کو روا رکھا۔
شمالی بھارت کے ذرائع ابلاغ اور صحافیوں نے بالعموم حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، جنوب کی صورت حال یوں بھی یکسر مختلف ہے۔ یہاں پولرائزیشن میں ناکامی کی ایک اہم وجہ میڈیا کا اپنی ذمہ داری کو پیشہ ورانہ طور پر انجام دینا اور بہتر ادارہ جاتی نظم کے ساتھ ان کو چلانے کا کامیاب تجربہ ہے۔ دوسری اہم وجہ معاشرہ کے ساتھ ساتھ علاقائی ذرائع ابلاغ میں مختلف سطحوں پر اقلیتوں کی شراکت داری ہے۔ حاشیہ پر رہنے والوں کو اس سے یک گونہ طاقت مل رہی ہے۔
کیرالا کے ملیالم چینل میڈیا وَن کی سابقہ ایک دہائی کی کامیاب کارکردگی نے یہاں کے عوام کو ایک حوصلہ اور امید فراہم کی۔ یوں ایک غیر جانبدار پلیٹ فارم کی موجودگی نے تعصب اور نفرت والے ایجنڈے کی ہوا نکالنے کا کام کیا۔ آسام اور دلی کے طلبہ و طالبات نے سڑکوں پر اتر کر اور بزرگ نانیوں و دادیوں نے شاہین باغ میں ڈٹ کر سی اے اے اور این آر سی کا جس پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا اسے ملک نے پہلی بار دیکھا کہ موجودہ اقتدار سے آنکھوں میں آنکھ ڈال کر سوال کیا جا سکتا ہے اور ’ڈر‘ نامی چیز محض ایک خام خیالی ہے۔ اس ایک واقعے نے حزب اختلاف کو بھی زبان دی۔ میڈیا ون نے اس پہلو سے پختہ موقف کے ساتھ متواتر رپورٹنگ جاری رکھی جس سے یہ چینل حکومت کی نگاہوں میں کھٹکنے لگا۔ اب سپریم کورٹ کی جانب سے صحافت کی خود مختاری اور حکومت کے میڈیا کو کنٹرول کرنے والے مزاج کے خلاف جو تازہ فیصلہ آیا ہے وہ ایک نیا سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ ’مہر بند لفافہ‘ والا حکومت کا طرز فریادی کے لیے انصاف رسانی میں رکاوٹ ہے، ’ہوا ہوائی باتوں‘ کی بنا پر ’قومی سلامتی‘ کو کوئی خطرہ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ خفیہ اداروں کی رپورٹوں کو حرفِ آخر تسلیم نہیں کیا جا سکتا خاص طور پر جب وہ کسی کے لیے ’فطری اور کھلا انصاف’ حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہوں۔ حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید نہ حکومت کی مخالفت ہے نہ ملک کی۔ حکومت کی میڈیا کو زیر کرنے کی خواہش آزادیِ اظہار اور پریس فریڈم کے لیے خطرناک عمل ہے۔ عوامی جمہوریہ کو جاری رکھنے کے لیے خود مختار میڈیا ایک کلیدی عنصرہے، سچ بولنا اور شہریوں کو ٹھوس حقائق سے باخبر رکھنا پریس کا فرض ہے تاکہ اطلاعات اور خبروں میں یک رنگی اور یک رخی نہ رہ جائے بلکہ ایسی کلیت پسندی ہی ملک کی جمہوریت کے لیے ’خطرہ‘ ہے۔ حقائق کو ظاہر نہ کرنا اور مہر بند لفافے عدالتوں کے سامنے پیش کرنا ’قومی سلامتی‘ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ نیشنل سیکیوریٹی کے بہانے حکومت منصفانہ کردار ادا کرنے سے باز نہیں آ سکتی۔ بلکہ پہلے عدالت کو سلامتی کے اس مبینہ خطرے کے بارے میں اطمینان بخش حد تک حقائق سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ملکی آئین نے مظلوم کو داد رسی اور انصاف رسانی کے لیے راہیں کھلی رکھنے کا بنیادی حق فراہم کیا ہے جو آئین کی ’قلب و روح‘ ہے اور تدبیر سے میڈیا تو کیا کسی شخص کو بھی بے دخل نہیں کیا جا سکتا’ جیسا کہ کیرالا کی یک رکنی اور ڈبل بنچ نے مہر بند لفافے کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کر لیا تھا اور سپریم کورٹ نے اس رویے کی سرزنش بھی کی۔ اور سب سے بڑھ کر قومی سلامتی کی آڑ میں حکومتیں Judicial review یعنی ’عدالتی جائزہ اور نظرثانی‘ کے عمل سے بچ نہیں سکتیں،
سپریم کورٹ کا یہ سخت تبصرہ ایک حوالہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا:

یہ اور اس جیسی تمام حوصلہ مند باتیں میڈیا وَن چینل کی عدالتی داد رسی کے حق کو اختیار کرنے کے نتیجے ہی میں اجاگر ہو سکی ہیں۔
اب یہ بات ثابت ہو گئی کہ حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کی حکمرانوں کی خواہش پر شہریوں اور میڈیا کو عمل کرنا نہ ضروری ہے نہ ایسا کر کے وہ ملک و قوم دشمنوں والا رویہ اپنا رہے ہوتے ہیں۔ انگریز چلے گیے اب اپنے لوگ اکثریت کے ساتھ منتخب ہو کر کرسی پر آگئے ہیں تو مخالفت کی کیا ضرورت؟ اس دلیل کو اس تاریخی فیصلے نے دیوار پر دے مارا ہے۔ اقتدار چاہے جس فرد یا پارٹی کے پاس چلا جائے لیکن جمہور پر قدغن لگانے کا ان کے پاس اب کوئی جواز نہیں ہے۔
آج سے کچھ عشرے قبل چند انصاف پسند شہریوں کی جانب سے مادّھیَمَم ٹرسٹ کا قیام اور اس کے ملک و خلیج سے نکلنے والے روز نامہ اخبار مادھیمم نیز میڈیا ون چینل کی کامیاب کارکردگی ملک کے لیے خطرہ نہیں بلکہ وہ تو ملک کے سماجی تانے بانے کو مضبوط بنانے اور بندگانِ خدا کو انسانی ظلم و جور سے نجات دلا کر ایک عدل پر مبنی نظامِ زندگی کی جدوجہد ہے۔ اس کی اسی خدمت کا نتیجہ ہے کہ چینل پر پندرہ ماہ قبل پابندی کا اعلان ہوا تو پورا کیرالا صدائے احتجاج بن کر کھڑا ہو گیا تھا اور آج جب سپریم کورٹ نے چینل کے موقف کی مکمل تائید کی اور حکومت کی چالوں کو ناکام کرنے والا فیصلہ صادر کیا تو یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ پورے ملکی میڈیا اور جمہور کے لیے ایک نظیر بن کر تاریخ رقم کر رہا ہے۔ جس کی تائید میں ہر مکتب فکر اور ہر انصاف پسند اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
چینل کے ذمہ داروں نے اس مناسبت سے یہ ارادہ ظاہر کیا ہے کہ اب وہ پانچ سالہ منصوبے کے تحت اپنے کاموں کو مزید وسعت دیں گے اور تحقیقی (اِنویسٹی گیٹیو) رپورٹوں پر اپنے کاموں کو مرکوز کریں گے۔ ہمیں بجا طور پر توقع ہے کہ اس ادارہ کی یہ خدمت ملک اور باشندگانِ ملک کو راہ راست پر لانے میں بڑی کارآمد ثابت ہوگی جس کے لیے ہم صمیمِ قلب کے ساتھ ان کے تئیں اظہارِ یگانگت کرتے ہیں اور مستقبل کے لیے نیک تمنائیں پیش کرتے ہیں۔