اداریہ

فرانس اور اسرائیل کا سبق

آمرانہ اور شدت پسند طرز حکومت کو عوام بہت دیر تک برداشت نہیں کرسکتے۔ ایک وقت کے بعد عوام کی قوت برداشت بھی جواب دے دیتی ہے اور وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی دنیا کے دو انتہائی ترقی یافتہ ممالک، فرانس اور اسرائیل کی دائیں بازو کی شدت پسند حکومتیں اپنی نا عاقبت اندیشی کے سبب عوام کے غیض و غضب کا سامنا کر رہی ہیں۔ ان ممالک کے حکم رانوں نے اقتدار کے نشے میں مست ہو کر اپنی انانیت اور ضد میں کیے گئے فیصلوں سے ملک کو خانہ جنگی جیسی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ فرانس کے صدر ایمانویل میکراں کی حکومت نے ملازمین کی سبکدوشی کی عمر میں اضافہ اور اس کے قواعد میں اصلاحات کا فیصلہ کیا اور اس قانون کے نفاذ کے لیے پارلیمنٹ میں مباحثے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے بجائے اپنے انتظامی اختیارات کا استعمال کر کے ایک حکم نامے کے ذریعے اس کو روبہ عمل لانے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ آئین کے مطابق اس طرح کا اقدام غلط نہیں تھا لیکن عام طور پر عوام کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کرنے والے قوانین کو پارلیمنٹ میں مباحثے اور اتفاق رائے کے بعد ہی منظور کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں میکراں کی حکومت نے اپنی عددی طاقت کے نشے میں اس عمومی روایت سے انحراف کیا۔ فیصلے کے بعد فرانس کے عوام نے پورے ملک میں اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ حکومت نے جب طاقت کے بل پر اس احتجاج کو روکنے کی کوشش کی تو عوام مشتعل ہو گئے اور یہ احتجاج مزید پھیلنے کے ساتھ ساتھ پرتشدد بھی ہو گیا۔ اس احتجاج میں شامل مختلف تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ پورے ملک میں تقریباً 35 لاکھ افراد ان احتجاجوں میں شامل ہیں۔ صرف پیرس میں جو احتجاج ہوا اسی میں تقریباً 8 لاکھ لوگوں نے حصہ لیا۔ احتجاجیوں نے کہا کہ صدر میکراں کے آمرانہ رویے نے انہیں اور بھی غصہ دلایا ہے، ان تبدیلیوں کی مخالفت کرنے والوں کے لیے ان کا رویہ حقارت آمیز اور متکبرانہ ہے۔ احتجاج کی قیادت کرنے والے ایک قائد جین لیوک میلنخواں کا کہنا ہے کہ لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ فرانس کو کلیت پسندانہ نظام کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور اکثر لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس راستے پر فرانس کافی دور نکل گیا ہے۔ مقتدر گروہ کی یہ انانیت اور تکبر فرانس کو کس مقام پر لے جائے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
فرانس کے علاوہ اس وقت اسرائیل بھی عوامی احتجاج کی زد میں ہے۔ لاکھوں اسرائیلی عوام شدت پسند دائیں بازو کی نتن یاہو حکومت کی جانب سے نظام عدلیہ میں کی جانے والی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو تقریباً 6 لاکھ افراد اس الٹرا نیشنلسٹ، آزادی مخالف حکومت کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے۔ کہا جا رہا ہے کہ عدالتی نظام میں اصلاحات کا یہ منصوبہ ملک کی اعلیٰ عدالت کی آزادی اور خود مختاری کو کمزور کر دے گا جس کے سبب وہ اسرائیلی پارلیمنٹ یا کنیسہ پر کوئی نگرانی نہیں رکھ پائے گا۔ اس سلسلے میں پیش کیے گئے مختلف بل عدالت کو اس قابل نہیں رہنے دیں گے کہ وہ ان قوانین کو رد کردے جو اس کی نظر میں آئین کے خلاف ہوں۔ ان اصلاحات کے ذریعے مقننہ کو ججوں کے تقرر کے بھی زائد اختیارات حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کی تبدیلیاں آزاد و خود مختار عدلیہ کو کمزور کرنے والی ہیں۔احتجاج کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان عدالتی اصلاحات کا نتیجہ اکثریت کے تسلط کی صورت میں نکلے گا، اقلیتی طبقات کو سنگین خطرات لاحق ہو جائیں گے اور وہ اور ان کے حقوق اکثریت کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کے عرب شہری ایک اہم اقلیتی گروہ ہیں اور یہ ملک کی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ کئی اسرائیلی لیڈروں نے اس بات کا اندیشہ بھی ظاہر کیا کہ ملک پر فسطائیت کا غلبہ ہو رہا ہے۔ ان اندیشوں کے درمیان احتجاج شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔
فرانس اور اسرائیل میں پیدا ہونے والی صورت حال اس بات کو واضح کرتی ہے کہ کسی بھی ملک کا نظام صرف اسی وقت پرامن انداز میں چل سکتا ہے جب اس ملک کے حکمراں آمرانہ طرز حکومت، انانیت اور ضد و ہٹ دھرمی کے بجائے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے فیصلے کرنے کی روایت کو اختیار کریں۔ قانون سازی اور فیصلوں میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ ملک کے تمام باشندوں، بالخصوص اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں، ان کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کیا جائے، ان کے خدشات اور اندیشوں کو دور کیا جائے۔ محض پارلیمنٹ میں کسی پارٹی کو اکثریت کا حاصل ہو جانا اس بات کی سند نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہیں فیصلے کرے اور عوام اور ان کے نمائندوں کو اعتماد میں لیے بغیر قوانین پر قوانین منظور کرتے جائے۔
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ جب ہمارے پڑوسی ملک سری لنکا میں وہاں کے عوام نے آمریت پسند حکمرانوں کو بے حد ذلیل کر کے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔ دائیں بازو کے حکمرانوں کی اقرباء پروری اور کاروباری گھرانوں سے ان کی قربت نے عام شہریوں کی روز مرہ کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔
اگر کسی ملک کے حکمراں اقتدار کے نشے میں چور ہو کر اپنی عددی طاقت کے گھمنڈ اور میڈیا کے بل پر اپنے اقتدار کو کچھ عرصہ کے لیے بچا بھی لے جائیں تو عوام ان کے اس رویے کو ایک حد تک ہی برداشت کرتے ہیں اور جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف وہ اقتدار سے بے دخل کر دیے جاتے ہیں بلکہ خود ملک بھی شدید بحران سے دو چار ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے حکمرانوں کو بھی وقت کے رہتے ان واقعات سے سبق لینا چاہیے۔