
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے اس سال اپنے قیام کی صدی مکمل کر لی ہے۔ 1925ء میں قائم ہونے والی یہ تنظیم آج ملکی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کر چکی ہے اور سماج پر نہایت گہرے اثرات ڈال رہی ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) نے گزشتہ ایک صدی کے دوران ہندوستان کے سیاسی و ثقافتی منظر نامے میں اپنی جڑوں کو کافی مستحکم کر لیا ہے۔ چنانچہ اس سال یہ تنظیم اپنی صد سالہ تقریبات کو نہ صرف پورے جوش وجذبے سے منا رہی ہے بلکہ ان تقریبات کے دوران اپنے نظریاتی زاویوں کو بھی نئے رنگوں میں پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ صد سالہ تقریبات کے موقع پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت جگہ جگہ بیانات دے کر "ہندو راشٹر” کو نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ہندو راشٹر کا مطلب اقتدار یا کسی خاص مذہب کی بالادستی نہیں ہے بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا تصور ہے۔ اسلام کے متعلق ان کا حالیہ بیان بھی بظاہر بہت مثبت نظر آتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیانات آر ایس ایس سے متعلق حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں یا یہ صرف ہندوتوا کے بیانیے کو نرم کرنے کی کوشش ہے؟
آر ایس ایس نے اپنی تقریبات میں خود کو ایک نرم اور شمولیتی تنظیم کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے "پانچ نکاتی” منصوبے یعنی سماجی ہم آہنگی، خاندانی بیداری، ماحولیاتی تحفظ، خود شناسی اور شہری ذمہ داری کے ذریعے تنظیم نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ صرف سیاست کا نہیں بلکہ سماجی خدمت کا پلیٹ فارم بھی ہے۔ سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو صد سالہ پروگراموں میں مدعو کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ تنظیم نچلے طبقے کے لوگوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ مگر یہ صرف نمائشی اقدامات ہیں۔ آر ایس ایس کی تاریخ اور اس کا رویہ صاف بتاتے ہیں کہ اس کا اصل مقصد ہمیشہ ہندو قوم پرستی کو فروغ دینا اور ملک کو ایک "ہندو راشٹر” میں ڈھالنا رہا ہے۔
موہن بھاگوت نے اپنے حالیہ بیانات میں کہا ہے کہ ہندو راشٹر کا مطلب سب کے لیے انصاف اور اتحاد ہے، یہ کسی کے خلاف نہیں ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ سب کا DNA ایک ہے اور ہم سب ایک ہی تہذیبی روایت کا حصہ ہیں۔ لیکن اگر ایسا ہوتا تو ملک میں اقلیتیں بار بار خوف و عدم تحفظ کا شکار نہ ہوتیں۔ مسلمانوں کے خلاف "لو جہاد” اور "گھر واپسی” کے نام پر پروپیگنڈا، تبدیلی مذہب مخالف قوانین، اور ماب لنچنگ جیسے واقعات پیش نہ آتے جو آر ایس ایس کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتے ہیں۔ اگر ہندو راشٹر واقعی سب کے لیے ہے تو پھر کیوں اقلیتوں کو بار بار دوسرے درجے کے شہری کے زمرے میں دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے؟
بابری مسجد کی شہادت سے لے کر گجرات فسادات تک، آر ایس ایس اور اس کی نظریاتی ذیلی تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ کو ہوا دیتی رہی ہیں۔ گائے کے نام پر درجنوں افراد مارے گئے لیکن اکثر مجرمین کو سزا نہیں ملی۔ عیسائی مشنری اداروں پر حملے، پادریوں کو ہراساں کرنے اور چرچ کو نشانہ بنانے کے واقعات بتاتے ہیں کہ آر ایس ایس عیسائی برادری کو بھی شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ تبدیلی مذہب کے قوانین اسی خوف کو مزید بڑھاتے ہیں۔ دلتوں کو آج سیاسی فائدوں کے لیے تقریبات میں نمایاں کر کے پیش کیا جا رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس کا ڈھانچہ ذات پات کی سوچ سے قطعی الگ نہیں ہوا ہے۔ رام ناتھ کووند کی شرکت محض ایک علامتی اقدام ہے، جس سے حقیقت نہیں بدلتی۔
صد سالہ تقریبات کے بیانات دراصل ایک سیاسی حکمت عملی ہیں۔ چونکہ آر ایس ایس کو اب عالمی سطح پر بھی ایک انتہا پسند تنظیم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اس لیے اس کے سربراہ اپنی تقریروں کے ذریعے اس تاثر کو بدلنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہندوستانی سماج اور یہاں کی سیاست میں گزشتہ ایک صدی میں جو زہریلے بیج بوئے گئے ہیں انہیں الفاظ کی جادوگری سے نہیں چھپایا جا سکتا۔ آر ایس ایس کا ماضی اور حال اس بات کو واشگاف کرتے ہیں کہ یہ تنظیم ہمیشہ نفرت، تقسیم اور اکثریتی بالادستی پر قائم رہی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ ہندوستانی سماج اس کے زہریلے بیانیے کو پہچانے اور اس کی دل فریب باتوں کی حقیقت کو سمجھے۔ اسی میں ملک کی بھلائی ہے کیوں کہ یہ ملک صرف ایک مذہب یا ایک طبقے کا نہیں بلکہ سب کا ہے اور اسی میں اس کی اصل طاقت پوشیدہ ہے۔