
ہمارے ملک میں ذات پات پر مبنی امتیاز اور معاشی تفریق کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں۔ آزادی کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ آئین کی روشنی میں مساوات اور انصاف کا نظام قائم ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی پس ماندہ اور دبے کچلے طبقات اسی محرومی کا شکار ہیں۔ حالیہ دنوں میں لیٹرل انٹری کے نام پر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر بھرتیوں نے اس بحث کو ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے۔
لیٹرل انٹری کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ حکومت کو تجربہ کار اور ماہر افراد مل سکیں لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ 2018 سے اب تک اس نظام کے ذریعے جو تقرریاں ہوئیں ان میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو یا تو پہلے ہی طاقتور اور بااثر طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر ان کا جھکاؤ کھلے عام سنگھ نظریات کی طرف ہے۔ اس پر سب سے بڑی تنقید یہی کی جا رہی ہے کہ لیٹرل انٹری کا دروازہ پس ماندہ طبقات کے لیے بند اور سنگھ سے وابستہ افراد کے لیے کھلا ہے۔
اعداد و شمار بھی یہی بتاتے ہیں۔ حکومت نے اب تک 63 افراد کو لیٹرل انٹری کے ذریعے مختلف وزارتوں میں بھرتی کیا ہے۔ لیکن ان تقرریوں میں نہ ریزرویشن کا کوئی نظام رکھا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ ان افراد کا سماجی پس منظر کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ معلوم ہی نہیں کہ ان میں کتنے دلت، پسماندہ یا اقلیتی طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق مرکزی یونیورسٹیوں میں پوسٹ گریجویٹ سے اوپر کے اساتذہ کی 85 فیصد تعداد اعلیٰ ذاتوں سے ہے۔ بہار کے ذات پات سروے میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ دلت اور انتہائی پسماندہ طبقات آبادی کا بڑا حصہ ہیں لیکن سرکاری ملازمتوں میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسی پس منظر میں لیٹرل انٹری جیسے اقدامات محروم طبقات کے اعتماد کو مزید مجروح کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کے لیے مواقع سکڑتے جا رہے ہیں جبکہ سنگھ یا بااثر حلقوں کے افراد کے لیے دروازے چوپٹ کھول دیے گئے ہیں۔
اس صورتحال کو مزید سنگین بنانے والی بات یہ ہے کہ ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر نفرت اب سوشل میڈیا پر بھی کھلے عام پھیلائی جا رہی ہے۔ ایسے بیانات اور رویے معاشرتی تقسیم کو اور زیادہ گہرا کر رہے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ حکومت اور سماج دونوں اس حقیقت کا سامنا کریں۔ اگر لیٹرل انٹری واقعی ایک مثبت قدم ہے تو اسے شفاف، سب کے لیے کھلا اور ریزرویشن پالیسی کے مطابق بنایا جائے۔ بصورت دیگر یہ نظام صرف طاقتور طبقات اور سنگھ نظریے کے حامیوں کی اجارہ داری کو بڑھانے کا ذریعہ بنے گا۔
ملک کی جمہوری روح اور آئینی قدروں کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پس ماندہ طبقات کو ان کا جائز حق دیا جائے اور ذات پات و معاشی تفریق کے اس پرانے کھیل کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے۔
تھیلے میں نو زائیدہ کی لاش… اور ہمارے نظامِ صحت کا المیہ
اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جب ایک باپ اپنی نوزائیدہ بچی کی لاش بیگ میں رکھ کر ضلع مجسٹریٹ کے دفتر پہنچا۔ الزام یہ تھا کہ ہسپتال کے غلط علاج اور غیر ضروری پیسے کے مطالبے کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا۔ یہ منظر صرف ایک خاندان کا دکھ نہیں تھا بلکہ پورے ملک کے نظامِ صحت کی ابتر صورتِ حال کا آئینہ تھا۔ ایک ایسا نظام جو سرکاری دعووں اور بجٹ تقریروں میں تو مضبوط دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں ہر روز کسی نہ کسی غریب مریض کی جان لے رہا ہے۔
حکومت بار بار یہ بتاتی ہے کہ عوامی صحت کے شعبے میں سرکاری خرچ بڑھا ہے اور سہولتیں بہتر ہو رہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی بھارت اپنے جی ڈی پی کا بمشکل 1.8 فیصد ہی صحت پر خرچ کرتا ہے۔ نیشنل ہیلتھ پالیسی نے 2025 تک یہ شرح 2.5 فیصد تک پہنچانے کا وعدہ کیا تھا مگر ابھی تک یہ ہدف دور کی کوڑی ہے۔
صحت پر عوام کے جیب سے ہونے والا خرچ اب بھی کل اخراجات کا تقریباً 40 فیصد ہے۔ یعنی بیماری کسی بھی عام خاندان کو قرض، غربت اور بے بسی کے غار میں دھکیل سکتی ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق بھارت میں فی ہزار آبادی صرف 1.6 ہسپتال بستر ہیں، جب کہ عالمی معیار کم از کم 3 بستر فی ہزار کا ہے۔ دیہی علاقوں کے کمیونٹی ہیلتھ سنٹروں میں اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی کمی 80 فیصد سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسی حاملہ عورت، ایک حادثے کے مریض یا ایک نوزائیدہ بچے کے لیے بروقت علاج کا ملنا اکثر ممکن نہیں ہوتا۔
جب سرکاری ہسپتال ناکام ہو جاتے ہیں تو مریض نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں ان کا سامنا ہزاروں روپے کے غیر ضروری ٹیسٹوں اور علاج کے بلوں سے ہوتا ہے۔ آیوشمان بھارت جیسی اسکیمیں بھی کئی ریاستوں میں ادھوری اور واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے رکی پڑی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ مریض کے پاس یا تو جیب خالی کرنے کا راستہ ہوتا ہے یا موت کا۔
یہ وقت کاغذی دعوؤں سے آگے بڑھنے کا ہے۔
ہر ضلع ہسپتال میں ایمرجنسی، آئی سی یو اور نوزائیدہ یونٹ کو لازمی بنایا جائے۔
نجی ہسپتالوں کے ریٹ عوام کے سامنے شفاف ہوں اور اوور چارجنگ پر سخت جرمانے ہوں۔
آیوشمان اور دوسری اسکیموں کے واجبات 30 دن میں ادا کرنے کی قانونی گارنٹی ہو تاکہ ہسپتال مریضوں کو انکار نہ کر سکیں۔
نرسنگ اور پیرا میڈیکل اسٹاف میں بڑے پیمانے پر بھرتیاں ہوں کیونکہ بستر اور عمارتیں عملے کے بغیر محض ڈھانچہ ہیں۔
لکھیم پور کے باپ کا تھیلے میں بیٹی کی لاش اٹھائے آفس پہنچنا محض ایک حادثہ نہیں، یہ ہمارے اجتماعی ضمیر پر دستک ہے۔ آج یہ بچہ تھا، کل کوئی اور ہوگا۔ اگر حکومت اور سماج نے فوری اور سنجیدہ قدم نہ اٹھائے تو یہ سانحے معمول بن جائیں گے۔ صحت پر خرچ بڑھانا، نگرانی سخت کرنا اور نجی ہسپتالوں کو لگام دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
ہمارے ملک کے شہریوں کو عزت اور تحفظ کے ساتھ علاج کا حق ملنا چاہیے—یہ حق کسی بیگ میں لاش بن کر کلکٹر آفس تک نہ پہنچے۔