اداریہ

سجا ہے جھوٹ کا بازار کیا کیا جائے

اس وقت ملک عزیز میں جھوٹی خبروں چھیڑ چھاڑ کی ہوئی ویڈیوز اور افواہوں کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کر کے ماحول خراب کیا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے انتخابی موسم قریب آ رہا ہے یہ ناپاک کوششیں بہت زیادہ تیز ہوتی جارہی ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ ایک جانب ان جھوٹی خبروں کے ذریعے ایک جانب پرامن ماحول کو بگاڑ کر، مختلف گروہوں کے درمیان انتشار پیدا کر کے اسے اپنے لیے سازگار بنایا جائے اور دوسری جانب غلط معلومات اور روزگار و معیشت کے متعلق اعدادو شمار اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے موجودہ حکومت اور وزیر اعظم کو ایک تاریخ ساز شخصیت بنا کر پیش کیا جائے۔ چنانچہ پچھلے دنوں ملک میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی بنیاد میں جھوٹی خبریں موجود تھیں اور دونوں ہی واقعات کے تانے بانے کسی نہ کسی طرح برسر اقتدار گروہ سے ملتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ملک کے ایک مشہور ٹی وی چینل پر نوبیل پرائز کمیٹی کے نائب صدر کا انٹرویو نشر ہوا۔ اس انٹرویو کے دوران یوکرین-روس جنگ سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کی۔ ان چند تعریفی کلمات کی بنیاد پر مذکورہ ٹی وی چینل نے نوبیل پرائز کمیٹی کے نائب صدر کے حوالے سے یہ بے بنیاد اور جھوٹی خبر نشر کردی کہ نریندر مودی نوبیل امن انعام کے سب سے مضبوط امیدوار ہیں جس کے ساتھ ہی وزیر اعظم مودی کی تعریفوں کے پل باندھے جانے لگے اور ہر طرف یہی گفتگو کا موضوع بن گیا۔ لیکن جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے ایک نہ ایک دن حقیقت سامنے آہی جاتی ہے اور جھوٹ کی دکان چلانے والوں کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ چنانچہ یہاں بھی وہی ہوا۔ جھوٹ کو اتنا پھیلایا گیا کہ آخر کار نوبیل پرائز کمیٹی کے نائب صدر کو یہ وضاحت کرنی پڑی کہ یہ سب جھوٹ ہے اور اس پر گفتگو کر کے اس جھوٹ کو مزید نہ پھیلایا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس جھوٹی خبر سے آخر ملک کو کیا فائدہ ہوا؟ کیا اس سے ہمارے ملک کے وقار میں اضافہ ہوا یا کمی ہوئی؟ ان جھوٹی باتوں کی مدد سے عوام کے دلوں میں اگر کسی کی عزت بڑھائی بھی جائے تو وہ نہایت ہی ناپائیدار ہوتی ہے جیسے ہی سچ سامنے آتا ہے، سارا بھرم کھل جاتا ہے۔
دوسرا واقعہ تمل ناڈو کا ہے اور یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلے واقعے سے بھی زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے۔ تمل ناڈو میں کام کرنے والے بہاری مزدوروں پر تمل بولنے والوں کے ظلم اور تشدد کی جھوٹی خبریں ہندی اخبارات کے ذریعے ملک بھر میں پھیلائی گئیں اور بی جے پی کے لیڈروں نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس کے ذریعے ان کو مزید اشتعال انگیز بنا دیا۔ افواہیں پھیلائی گئیں کہ تمل ناڈو میں تمل بولنے والی آبادی کی جانب سے بہاری مزدوروں کی جان کو خطرہ ہے اور بہاری مزدور اپنی جانوں کے خوف سے تمل ناڈو چھوڑ کر واپس اپنے وطن فرار ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی بہار کی حکومت پر یہ کہہ کر تنقید کی جانے لگی کہ ایک طرف تمل بولنے والے بہار کے مزدوروں پر ظلم و تشدد کر رہے ہیں تو دوسری جانب وہ تمل ناڈو کے حکمرانوں کے ساتھ دوستیاں کر رہے ہیں۔ تحقیق کے بعد یہ سب جھوٹ اور افواہیں ثابت ہوئیں۔ یہ سارا ہنگامہ محض ایک جھوٹی ویڈیو کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا۔ ویڈیو بنانے والے کو گرفتار کرلیا گیاہے۔ وہ ویڈیو جھوٹا ثابت ہوا جس میں ایک شخص نے اپنی مظلومیت کی داستان بتائی تھی اور وہ خبریں بھی غلط ثابت ہوئیں جن میں کہا گیا تھا کہ بہار کے مزدور خوف کے مارے تمل ناڈو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ اس معاملے میں بی جے پی کے لیڈروں نے نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ تمل ناڈو کی حکومت نے بر وقت کارروائی کرتے ہوئے اس جھوٹ کا پردہ فاش کیا اور بہار کے مزدوروں میں اعتماد کو بحال کیا۔
یقیناً جنوب کی ریاستوں بالخصوص تمل ناڈو میں ہندی زبان کے جبری نفاذ کے خلاف بہت زیادہ غم و غصہ پایا جاتا ہے لیکن یہ غصہ حکومت کے خلاف ہے ہندی بولنے والے عوام کے خلاف نہیں ہے۔ تمل ناڈو اور جنوبی بھارت کی دوسری ریاستوں میں شمالی بھارت کے بے شمار مزدور اور کاریگر کام کرتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ لیکن ہندی کے جبری نفاذ کے خلاف موجود غصے کی کیفیت کو عوام کے درمیان نفرت پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنا ملک کے لیے انتہائی خطرناک بات ہے۔ اور غلط معلومات و جھوٹی خبروں کے ذریعے اس نفرت کو ہوا دینا اقتدار پر فائز گروہ کے افراد کے لیے انتہائی قابل شرم ہے۔
بہاری اور تمل عوام کے بیچ فرضی ویڈیوز پوسٹ کر کے منافرت اور ٹکراؤ پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف دونوں ریاستوں میں مناسب قانونی کارروائی کی گئی لیکن انتہائی حیرت کی بات ہے کہ نوبیل پرائز کمیٹی کے نائب صدر کے، وزیر اعظم مودی سے متعلق بیان کو غلط طریقے سے عوام کے سامنے پیش کرنے پر کسی طرح کی کوئی کارروائی ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔
اس موقع پر یہ یاد دلا دینا ضروری ہے کہ میڈیا کا سب سے اولین فرض یہ ہے کہ وہ مختلف ذرائع سے کام لے کر عوام تک درست اور صحیح معلومات فراہم کرے۔ اپنی تحقیق و تفتیش سے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کی حیثیت سے پیش کرے۔ بات کو اسی طرح پیش کرے جس طرح وہ کہی گئی ہے۔ بات کو غلط معنی یا اپنے مطلب کے معنی نہ پہنائے۔ حکومت کی خرابیوں اور کمزوریوں پر حکمرانوں سے سوال کرے۔ لیکن آج ہمارے ملک کا میڈیا اپنے مالکوں اور آقاوں کے مفادات کی خاطر انتہائی بد دیانتی کے ساتھ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے اور بے بنیاد اور غلط خبروں کو بڑے پیمانے پر پھیلاتا ہے اور قابل توجہ خبروں کو دبا دیتا ہے۔ عوام کو اس نفرت کی سوداگری کرنے والے میڈیا سے اور اس کی مدد سے جھوٹ کو عوام میں پھیلانے والے لیڈروں کی مکاریوں سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔