
بھارت کی پارلیمنٹ سے حال ہی میں منظور ہونے والا انکم ٹیکس بل 2025 بظاہر ٹیکس اصلاحات کے نام پر لایا گیا ہے لیکن اس کے اندر ایک شق ایسی موجود ہے جو شہری آزادی اور عوام کی پرائیویسی کے حق پر براہِ راست حملہ کرنے والی ہے۔ اس قانون کے تحت اب ٹیکس افسران کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی ٹیکس دہندہ کے ای میل، واٹس ایپ کی بات چیت، سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور دیگر ڈیجیٹل ریکارڈز تک رسائی حاصل کر سکیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ٹیکس اصلاحات کے نام پر اپنے ہی شہریوں کی نجی زندگیوں میں تانک جھانک کرنے اور ان کے خانگی معاملات کو کھنگالنے کا حق رکھتی ہے؟
یہ اقدام محض ٹیکس کے نظام کو شفاف بنانے کی کوشش تو نہیں معلوم ہوتا جیسا کہ حکومت کا دعوی ہے بلکہ ایک ایسے خطرناک رجحان کی سمت پیش قدمی ہے جو ملک کو عوامی جمہوریت سے بدل کر ایک کڑی نگرانی والی ریاست بنا سکتا ہے۔ حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ ماضی میں مختلف مواقع پر ملک میں ہونے والے بڑے مالی گھپلوں اور ٹیکس کے فراڈوں کا سراغ لوگوں کی اسی ڈیجیٹل گفتگو کے ذریعے ملا ہے، اس لیے یہ اختیارات وقت کی ضرورت ہیں۔ لیکن یہ دلیل شہریوں کو مطمئن کرنے کے بجائے ان میں اور زیادہ تشویش پیدا کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا چند مجرموں کے گھپلوں کو مثال بنا کر ملک کے تمام شہریوں کو شک کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے اور ان کی ذاتی گفتگو کو طشت از بام کیا جا سکتا ہے؟ آیا یہ قدم واقعی مبنی بر انصاف ہے یا آمریت کی ایک نئی شکل ہے؟
اس قانون کے نفاذ کے بعد ایک عام شہری کو اس بات کا یقین ہی نہیں رہتا کہ اس کے نجی پیغامات اور ذاتی زندگی محفوظ ہے، اس لیے کہ یہ بل حکومت کو لوگوں کی نجی اور عائلی زندگیوں کے اس حصے تک رسائی دیتا ہے جہاں کوئی اور نہیں پہنچ سکتا۔ بل میں شامل ورچول ڈیجیٹل اسپیسز جیسی مبہم اصطلاحات اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ حکومت نے جان بوجھ کر عوام پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیا ہے۔ اس بل کی سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس پورے عمل میں عدالتی اجازت کو کہیں بھی لازمی نہیں قرار دیا گیا ہے۔ یعنی محض کسی بھی افسر کی صوابدید پر آپ کے پیغامات اور اکاؤنٹس کو کھولا جا سکتا ہے۔ ایسے میں ایک وکیل و مؤکل، ڈاکٹر و مریض، صحافی اور اس کے ذرائع اور شوہر و بیوی جیسے مختلف النوع اور مقدس رشتے بھی اس نگرانی کی زد میں آ جاتے ہیں۔ یہ صرف انسانوں کی پرائیویسی پر ہی شب خون نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی اصولوں کی بنیادوں پر بھی حملہ ہے۔
سپریم کورٹ نے 2017 کے پٹا سوامی کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے پرائیویسی کو بھی ایک بنیادی حق قرار دیا تھا اور واضح کیا تھا کہ حکومتی مداخلت صرف اسی وقت جائز ہوگی جب وہ ضروری، متناسب اور شفاف ہو۔ لیکن انکم ٹیکس بل کا مذکورہ ضابطہ ان تینوں شرائط کو پامال کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ نہ اس میں ضرورت کی کوئی معقول تعریف کی گئی ہے، نہ تناسب کا کوئی پیمانہ مقرر کیا گیا ہے اور نہ ہی شفافیت کے لیے عدالتی نگرانی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ جمہوریت کا مطلب صرف ووٹ دینا نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ ملک کے شہری اپنی ذاتی زندگی میں بھی خوف اور نگرانی سے آزاد زندگی گزاریں۔ اگر ہر شہری کو یہ ڈر لاحق رہے کہ حکومت اس کے پیغامات پڑھ رہی ہے یا اس کے ذاتی تعلقات کی نگرانی کر رہی ہے تو یہ آزادی نہیں بلکہ غلامی سے بھی بد ترین شکل ہو گی۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ بل کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ ملک میں پنپنے والے ایک بڑے رجحان کا حصہ ہے۔ آدھار کارڈ کے لازمی استعمال سے لے کر ڈیجیٹل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ تک، اور اب اس نئے قانون کے ذریعے ہر قدم پر حکومت شہریوں پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے۔ میڈیا پر پہلے ہی پریشر ہے، اختلاف کرنے والی آوازوں کو "ملک دشمن” قرار دے کر دبایا جا رہا ہے اور اب نجی گفتگوؤں تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان سب کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جمہوریت کا چہرہ بگڑ رہا ہے اور نگرانی کے مہیب سایے مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ حالاں کہ دنیا ان سب حالات سے پہلے بھی گزر چکی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں اسنوڈن کے انکشافات سے جب یہ معلوم ہوا کہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (NSA) لاکھوں شہریوں کی گفتگو اور ای میلز خفیہ طور پر جمع کر رہی ہے تو اس کے خلاف عوامی دباؤ اتنا بڑھا کہ حکومت کو قوانین بدلنے پڑے۔ چین میں "سوشل کریڈٹ سسٹم” کے تحت ہر شہری کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے اس کے نتیجے میں لوگ اپنی ذاتی زندگی بھی خوف کے سائے میں جیتے ہیں۔ اس کے برعکس یورپی یونین نے GDPR قانون کے ذریعے پرائیویسی کو مضبوط بنایا۔ وہاں کوئی حکومت یا ادارہ شہریوں کے ڈیٹا کو ان کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کر سکتا۔ بھارت کے سامنے بھی یہی انتخاب ہے کہ آیا وہ یورپی یونین کی طرح شہریوں کی آزادی کا مضبوط دفاع کرے گا یا چین کی طرح سخت نگرانی کرنے والی ریاست کی راہ پر گامزن ہوگا؟
بلا شبہ ٹیکس چوری کا خاتمہ ہونا چاہیے لیکن اس مقصد کے لیے شہریوں کی آزادی اور پرائیویسی کی قربانی دینا کسی طور قابلِ قبول نہیں ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ شہریوں کا اعتماد کھو دینا ٹیکس وصول کرنے سے کہیں زیادہ مہنگا ثابت ہوگا۔ اب بھی وقت ہے کہ پارلیمنٹ اس قانون پر دوبارہ غور کرے، عدالتی اجازت کو لازمی بنائے اور شہریوں کے آئینی حقِ پرائیویسی کی حفاظت کرے۔ بصورت دیگر آنے والی نسلیں یہی کہیں گی کہ بھارت نے اپنی ہی جمہوریت کو اپنی ہی قانون سازی کے ہاتھوں کمزور کر دیا تھا۔ بھارت کے عوام اور حکومت دونوں کو ان سوالوں پر غور کرنا چاہیے کہ ٹیکس کی وصولی زیادہ اہم ہے یا شہریوں کی ذاتی آزادی؟ کیا ایک افسر کے صوابدید پر مبنی فیصلے پر ہماری پرائیویسی قربان کر دی جائے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہماری نسلیں کس طرح آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں گی؟