
اداریہ
ممبئی ٹرین اور مالیگاؤں کے دھماکوں پر عدالتی فیصلے مذہبی بنیادوں پر حکومت کا دوہرا معیار
عدالت حقیقی انصاف کا گھر ہو اور ریاست آئین کی محافظ— یہ وہ خواب ہے جسے جمہوریہ ہند کے ہر شہری کو اس ملک کے آئین نے دکھایا ہے۔ ملک میں انصاف کی عمل داری اور آئین کی بالادستی کی ضمانت اسی وقت ممکن ہے جب عدالتیں بے خوف، آزاد اور غیر جانب دار ہوں اور حکومتیں انصاف کے قیام میں معاون بنیں نہ کہ رکاوٹ بن جائیں؟ عدالتیں اور ریاستی ادارے اگر انصاف اور مساوات کے تقاضے پورے نہ کریں تو یہ عمل محض عدل کے اصولوں ہی کی پامالی نہیں بلکہ ہندوستانی جمہوریت اور آئین کے بنیادی اقدار کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ چنانچہ حالیہ دنوں میں ممبئی ٹرین بم دھماکوں (2006) اور مالیگاؤں بم دھماکوں (2006) کے مقدمات کے عدالتی فیصلے اس تلخ حقیقت کی واضح مثال بن گئے ہیں۔ یہ فیصلے جہاں عدالتوں کی کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھا رہے ہیں وہیں ان پر حکومتوں کے رویوں میں پایا جانے والا مذہبی تعصب مزید خطرناک رجحان کی طرف اشارے کر رہا ہے۔
آج سے 19 برس قبل 11 جولائی 2006 کو ملک کے تجارتی دارالحکومت کی سات لوکل ٹرینوں میں بم دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 209 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے۔ پولیس نے تیرہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جن میں پانچ کو سزائے موت اور سات کو عمر قید سنائی گئی۔ تاہم، حالیہ دنوں یعنی جولائی 2025 میں بمبئی ہائی کورٹ نے ناقص تفتیش، پولیس کی اذیت رسانی اور ثبوتوں کی عدم دستیابی کی بنیاد پر تمام ملزمین کو باعزت بری کر دیا۔
دوسری طرف مالیگاؤں بم دھماکہ (8 ستمبر 2006) جس میں رمضان المبارک کے دوران ایک مسجد کے قریب ہونے والے بم حملے میں چھ افراد ہلاک اور تقریباً سو لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اس مقدمے میں ابتداً مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا مگر بعد میں تحقیقات نے واضح طور پر ہندو انتہا پسند گروہوں کے کردار کی طرف اشارہ کیا۔ مگر حیرت انگیز طور پر 31 جولائی 2025 کو خصوصی این آئی اے عدالت نے تمام نو ملزمین —جن میں بی جے پی کی سابق ایم پی سادھوی پرگیہ ٹھاکر اور لیفٹیننٹ کرنل پروہت بھی شامل تھے—کو ’’ثبوتوں کی کمی‘‘ کی بنا پر بری کر دیا۔
ان دونوں فیصلوں کے ما بعد حکومتوں کا رد عمل خاصا معنی خیز رہا۔ ممبئی ٹرین دھماکے کے مسلمان ملزموں کی بریت کے بعد مہاراشٹر کی حکومت نے فوراً سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی اور مرکزی حکومت نے اسے ’’انصاف کو نقصان پہنچانے والا فیصلہ‘‘ قرار دیا اور میڈیا میں بھی اس عدالتی فیصلے پر سخت تنقید سامنے آئی۔ اس کے بالکل برعکس مالیگاؤں دھماکے کے مقدمے میں ہندو انتہا پسندوں کے بری کیے جانے پر نہ صرف مہاراشٹر بلکہ مرکزی حکومت بھی مکمل طور پر خاموش رہی بلکہ اس کے لیڈروں نے اس فیصلے کو ’’انصاف کی فتح‘‘ قرار دیتے ہوئے جشن بھی منایا۔فیصلے سے ایک روز قبل مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا یہ بیان کہ ’’ہندو دہشت گردی جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی‘‘ اس رویے کی کھلی تائید تھا۔ یہ کھلا ہوا تضاد ظاہر کرتا ہے کہ حکومت انصاف کو مذہبی شناخت کی بنیاد پر تقسیم کر رہی ہے جو سراسر غیر اخلاقی، غیر انسانی، غیر آئینی اور جمہوری اقدار کے بالکل منافی ہے۔ اور مرکزی وزیر داخلہ کا یہ بیان مالیگاؤں فیصلے پر حکومت کی خاموشی کے ساتھ مل کر انتہا پسند ہندو گروہوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ان کے جرائم کو قانونی چھوٹ مل سکتی ہے۔ یہ رویہ "ہندوتوا” کے نام پر تشدد کو بالواسطہ جواز فراہم کرتا ہے۔
اس موقع یہ بات بھی یاد کرنی چاہیے کہ 2008 میں جب راہل گاندھی نے “ہندو دہشت گردی” کی اصطلاح استعمال کی تھی تو پوری بی جے پی ان کے خلاف صف آرا ہو گئی تھی۔ اور آج جب اسی جماعت کے سینئر لیڈر یہ کہہ رہے ہیں کہ "ہندو کبھی دہشت گرد نہیں سکتا”، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا دہشت گردی کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے؟ ناتھورام گوڈسے، ایل ٹی ٹی ای، نکسلی تحریک یا اندرا گاندھی کے قاتل — کیا یہ سب غیر مسلم نہیں تھے؟ کیا ان کے جرائم کو بھی مذہبی چشمے سے نہیں دیکھا جانا چاہیے؟ اگر نہیں تو پھر مسلم ناموں پر ہی دہشت گردی کا لیبل کیوں لگایا جاتا ہے؟
مالیگاؤں بم دھماکہ مقدمے پر خصوصی عدالت کے فیصلے نے تفتیشی اداروں کے کردار پر سنجیدہ سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ گزشتہ سترہ برسوں کی مدت میں ٹھوس ابتدائی شواہد ہونے کے باوجود بھی مقدمے کو مضبوط کیوں نہیں بنایا گیا؟ خاص طور پر 2014 کے بعد جب مقدمہ اے ٹی ایس سے لے کر قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) کے سپرد کیا گیا تو یہ عمل شفافیت کے بجائے سیاسی دباؤ کا شکار نظر آنے لگا۔ 2015 میں خصوصی پبلک پراسیکیوٹر روہنی سالیان کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’حکومت کی تبدیلی کے بعد ان پر ملزمین کے ساتھ نرمی برتنے کا دباؤ ڈالا گیا تھا‘‘۔ ایسے حالات میں یہ سوال اٹھانا ناگزیر ہے کہ کیا سیاسی اور نظریاتی مداخلت نے مقدمے کو سبوتاژ کر دیا ہے؟ کیا مقدمے کی تکمیل سے قبل ملزم کو سیاسی پلیٹ فارم دے کرپارلیمنٹ پہنچنے دینا انصاف کے تقاضوں کے منافی نہیں ہے؟
اگر انصاف کا پیمانہ مذہبی شناخت کے ساتھ بدل جائے تو یہ آئین کے ساتھ غداری اور جمہوریت کے ساتھ دھوکا ہو گا۔ وزیر اعظم کا "سب کا ساتھ، سب کا وکاس” کا نعرہ اس وقت بے معنی ہو جاتا ہے جب فیصلے اور حکومتوں کے رویے ملزموں کے مذہب کی بنیاد پر طے ہوں۔ بد قسمتی سے آج ملک اسی سنگین صورت حال سے گزر رہا ہے۔ اس نازک مرحلے میں ملک کے انصاف پسند طبقے کو آگے آنا ہوگا اور اس امتیازی رویے کو پوری قوت سے چیلنج کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ انصاف اور تاریخ کا اپنا میزان ہوتا ہے جو حقائق کو کبھی فراموش نہیں کرتا۔ یہ عدالتی فیصلے محض چند مقدمات نہیں بلکہ آئینی اخلاقیات، جمہوری اقدار اور ملک کے عدالتی نظام کے لیے ایک بڑا امتحان ہیں۔ ملک کے عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ آئینی اصولوں اور انسانی قدروں کو اپنائیں گے یا انصاف کے ترازو کو سیاسی مفادات کے تابع ڈولتا ہوا دیکھتے رہیں گے؟ یقیناً فیصلے عدالتوں میں ہوتے ہیں مگر تاریخ ہمیشہ اپنا وزن انصاف کے پلڑے میں ہی ڈالتی ہے۔ مسلمانانِ ہند کو چاہیے کہ وہ قانونی، سماجی اور سیاسی محاذ پر اپنی جدوجہد جاری رکھیں مگر اس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ کامیابی صرف اسی وقت ممکن ہے جب انصاف کا مطالبہ صرف وہی نہیں بلکہ ہر وہ ہندوستانی شہری کرے جو آئین پر یقین رکھتا ہو۔