
خاندان ہر معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے جس پر سماج کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہی خاندان آنے والی نسل کی اولین تربیت گاہ اور قومی اقدار و روایات کی نسل در نسل منتقلی کا ایک اہم وسیلہ ہوتا ہے۔ لیکن آج ہمارے ملک کا خاندانی نظام شدید انحطاط کا شکار ہے۔ یہاں ازدواجی زندگی اب ایک دوسرے کے تئیں محبت، ایثار، قربانی اور ذمہ داری کی بجائے دَھن اور دھونس کے دلدل میں پھنستی جا رہی ہے۔ دولت اور آسائش کے حاصل کرنے کی اندھی دوڑ نے رشتوں کی تقدس اور احترام کو پامال کرکے رکھ دیا ہے جس کے نتیجے میں خاندانوں کی بنیادیں ہلنے لگی ہیں اور یہ رجحان تشویشناک حد تک بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
اس معاملے کا ایک افسوسناک پہلو خواتین کی جانب سے گھر اور معاشرے کی بنیادی ذمہ داریوں سے فرار کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ آج مادہ پرستی اور سطحی زندگی کی چمک دمک نے خواتین کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگرچہ ان کی صلاحیتوں کا مثبت استعمال ملک کی معیشت میں بہتری کا باعث بن سکتا ہے لیکن محض دولت کے حصول کے اس رجحان نے کئی خاندانوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ رشتوں سے زیادہ دولت اور عیش و آرام کو اہمیت دینے سے گھروں میں محبت اور سکون ناپید ہوتا جا رہا ہے اور خاندان کے اس سب سے اہم ادارے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
ملک کی عدالتوں میں جاری مختلف مقدمات کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ زوجین کے درمیان اعتماد کی کمی بھی خاندان کے استحکام کے لیے ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ بڑے شہروں میں ایسے واقعات بھی سننے میں آرہے ہیں کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی باقاعدہ جاسوسی کرواتے ہیں۔ باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم کی کمی سے خاندانی جھگڑوں اور تنازعات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے نہ صرف زوجین بلکہ نئی نسل بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ نئی نسل کی تربیت اور پورے معاشرے کے استحکام کے لیے خاندان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مستحکم اور مضبوط خاندانی نظام ہی نئی نسل کو صحت مند اقدار فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
آج عدالتوں میں خاندانی تنازعات کے مقدمات کا انبار لگا ہوا ہے۔ مردوں کی جانب سے خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، جو معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور مایوسی کی علامت ہیں۔ یہ صورتحال عدالتوں کے نظام انصاف پر بھی سوالیہ نشان لگا رہی ہے کہ وہ خاندانی تنازعات کو حل کرنے میں کس حد تک مؤثر ثابت ہو رہے ہیں؟
ہندوستان میں شادی شدہ مرد و خواتین کے لیے زنا بالرضا (consensual sex) کی قانونی اجازت اور اس پر سے فوجداری پابندی کا خاتمہ بھی اس تشویشناک صورحال کا ایک اہم سبب ہے۔ اس طرح کے قوانین نہ صرف اخلاقی برائی کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ خاندانی نظام کی جڑوں کو بھی کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اس قانون نے نہ صرف نکاح جیسے مقدس رشتے کو غیر اہم بنا دیا ہے بلکہ ناجائز جنسی تعلقات کو معمول کا حصہ بنا کر نئی نسل کو بے راہ روی اور جنسی انارکی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس کے سبب شادی کے ادارے کی اہمیت کم ہو رہی ہے، جنسی آزادی کے نام پر ذمہ داری سے فرار کو فروغ مل رہا ہے اور عورت کا استحصال مزید آسان ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے قوانین دراصل مغربی ثقافتی یلغار کا حصہ ہیں جو مشرقی روایات، حیا اور خاندانی ڈھانچے کے لیے زہر قاتل بن چکے ہیں۔
اسلام ان تمام معاملات میں واضح موقف رکھتا ہے۔ اسلام کے نزدیک خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی اور نئی نسل کی بہترین تربیت گاہ ہے۔ زوجین کے درمیان باہمی اعتماد، محبت اور احترام کو لازم قرار دیتا ہے اور ہر قسم کی اخلاقی برائی کی سخت مذمت کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں معاشی کردار کی اہمیت کے ساتھ ساتھ خاندان کے فطری کردار کو ترجیح حاصل ہے۔ اسلام زنا کو سخت حرام اور معاشرتی فساد کا سبب قرار دیتا ہے اور نکاح کے ادارے کو تحفظ، وقار اور سکون کا ذریعہ سمجھتا ہے۔
یہ ملک کے تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خاندانی نظام کو بچانے کے لیے اجتماعی کوششیں کریں۔ خاندانی تربیت، اخلاقی تعلیم اور اقدار کے احیا کے لیے اجتماعی سطح پر سنجیدہ اقدامات کریں تاکہ معاشرے کی بنیاد مستحکم اور محفوظ رہ سکے۔